Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 40
یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْكُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِیْۤ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ١ۚ وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ
يَا بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ : اے اولاد یعقوب اذْكُرُوْا : تم یاد کرو نِعْمَتِيَ : میری نعمت الَّتِیْ : جو اَنْعَمْتُ : میں نے بخشی عَلَيْكُمْ : تمہیں وَاَوْفُوْا : اور پورا کرو بِعَهْدِیْ : میرا وعدہ أُوْفِ : میں پورا کروں گا بِعَهْدِكُمْ : تمہارا وعدہ وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَارْهَبُوْنِ : ڈرو
اے بنی اسرائیل یاد کرو میرے وہی احسان جو میں نے تم پر کئے اور تم پورا کرو میرا اقرار تو میں پورا کروں تمہارا اقرار اور مجھ ہی سے ڈرو
خلاصہ تفسیر
اے بنی اسرائیل (یعنی حضرت یعقوب ؑ کی اولاد) یاد کرو تم لوگ میرے ان احسانوں کو جو کئے ہیں میں نے تم پر (تاکہ حق نعمت سمجھ کر ایمان لانا تمہارے لئے آسان ہوجائے، آگے اس یاد کرنے کی مراد بتلاتے ہیں) اور پورا کرو تم میرے عہد کو (یعنی تم نے جو تورات میں مجھ سے عہد کیا تھا جس کا بیان قرآن کی اس آیت میں ہے، وَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا (12: 5) پورا کروں گا میں تمہارے عہد کو (یعنی میں نے جو عہد تم سے کیا تھا ایمان لانے پر جیسا کہ آیت مذکورہ میں ہے لَّاُكَفِّرَنَّ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ اور صرف مجھ ہی سے ڈرو (اپنے عوام معتقدین سے نہ ڈرو کہ ان کا اعتقاد نہ رہے گا اور ان سے آمدنی بند ہوجاوے گی) اور ایمان لے آؤ اس کتاب پر جو میں نے نازل کی ہے (یعنی قرآن پر) ایسی حالت میں کہ وہ سچ بتلانے والی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے (یعنی تورات کے کتاب الہی ہونے کی تصدیق کرتی ہے اور جو اس میں تحریفات کی گئی ہیں وہ خود تورات و انجیل ہونے ہی سے خارج ہیں ان کی تصدیق اس سے لازم نہیں آتی) اور مت بنو تم پہلے انکار کرنے والے اس قرآن کے (یعنی تمہیں دیکھ کر جو دوسرے لوگ انکار کریں گے ان سب میں اول بانی انکار و کفر کے تم ہوگے اس لئے قیامت تک ان کے کفر و انکار کا وبال تمہارے نامہ اعمال میں ہی درج ہوتا رہے گا) اور مت لو بمقابلہ میرے احکام کے معاوضہ حقیر اور خاص مجھ ہی سے پورے طور پر ڈرو (یعنی میرے احکام چھوڑ کر یا ان کو بدل کر یا چھپا کر عوام الناس سے دنیائے ذلیل و قلیل کو وصول مت کرو جیسا کہ ان کو عادت تھی جس کی تصریح آگے آتی ہے وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بالْبَاطِلِ اور مخلوط مت کرو حق کو ناحق کے ساتھ اور پوشیدہ بھی مت کرو حق کو جس حالت میں کہ تم جانتے بھی ہو (کہ حق کو چھپانا بری بات ہے)
معارف و مسائل
ربط آیات
سورة بقرہ قرآن کے ذکر سے شروع کی گئی اور یہ بتلایا گیا کہ قرآن کی ہدایت اگرچہ ساری مخلوق کے لئے عام ہے مگر اس سے نفع صرف مؤمنین اٹھائیں گے اس کے بعد ان لوگوں کے عذاب شدید کا ذکر فرمایا جو اس پر ایمان نہیں لائے ان میں ایک طبقہ کھلے کافروں اور منکروں کا تھا دوسرا منافقین کا دونوں کا مع ان کے کچھ حالات اور غلط کاریوں کا ذکر کیا گیا اس کے بعد مؤمنین مشرکین، منافقین کے تینوں طبقوں کو خطاب کرکے سب کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی تاکید کی گئی اور قرآن مجید کے اعجاز کا ذکر کرکے سب کو دعوت ایمان دی گئی پھر تخلیق آدم ؑ کا ذکر کرکے ان پر ان کی اصلیت اور حقیقت اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ واضح کی گئی تاکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کی ترغیب اور نافرمانی سے بچنے کی فکر ہو،
پھر کفار کی دو جماعتیں جن کا ذکر اوپر آیا ہے کھلے کافر اور منافق ان دونوں میں دو طرح کے لوگ تھے ایک تو بت پرست مشرکین جو محض باپ دادوں کی رسوم کی پیروی کرتے تھے کوئی علم قدیم یا جدید ان کے پاس نہ تھا عام طور پر ان پڑھ امی تھے جیسے عام اہل مکہ اسی لئے قرآن میں ان لوگوں کو امیین کہا گیا ہے
دوسرے وہ لوگ تھے جو انبیاء (علیہم السلام) پر ایمان لائے اور پہلی کتابوں تورات و انجیل وغیرہ کا علم ان کے پاس تھا لکھے پڑھے لوگ کہلاتے تھے ان میں بعض حضرت موسیٰ ؑ پر ایمان رکھتے تھے عیسیٰ ؑ پر نہیں ان کو یہود کہا جاتا تھا اور بعض موسیٰ ؑ پر ایمان رکھتے تھے حضرت موسیٰ ٰ ؑ کو بحیثیت نبی معصوم نہیں مانتے تھے یہ نصاریٰ کہلاتے تھے ان دونوں کو قرآن میں اس بناء پر اہل کتاب کہا گیا ہے کہ یہ دونوں اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتاب تورات یا انجیل پر ایمان رکھتے تھے یہ لوگ لکھے پڑھے اہل علم ہونے کہ وجہ سے لوگوں کی نظر میں معزز اور قابل اعتماد مانے جاتے تھے ان کی بات ان پر اثر انداز ہوتی تھی یہ راستے پر آجائیں تو دوسروں کے مسلمان ہونے کی توقع بڑی تھی مدینہ طیبہ اور اس کے قرب و جوار میں ان لوگوں کی کثرت تھی،
سورة بقرہ چونکہ مدنی سورت ہے اس لئے اس میں مشرکین و منافقین کے بیان کے بعد اہل کتاب کو خصوصیت اور اہتمام کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے چالیسویں آیت سے شروع ہو کر ایک سو تئیس آیات آخر پارہ (الۗمّۗ) تک انہیں لوگوں سے خطاب ہے جس میں ان کو مانوس کرنے کے لئے اوّل ان کی خاندانی شرافت اور اس سے دنیا میں حاصل ہونے والے اعزاز کا پھر اللہ تعالیٰ کی مسلسل نعمتوں کا ذکر کیا گیا ہے پھر ان کی بےراہی اور غلط کاری پر متنبہ کیا گیا اور صحیح راستہ کی طرف دعوت دی گئی ان میں سے پہلی سات آیتوں میں اجمالی خطاب ہے جن میں تین میں دعوت ایمان اور چار میں اعمال صالحہ کی تلقین ہے اس کے بعد بڑی تفصیل سے ان کو خطاب کیا گیا تفصیلی خطاب کے شروع میں اور بالکل ختم پر پھر اہتمام کے لئے يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ فرما کر انھیں الفاظ کا اعادہ کیا گیا ہے جن سے شروع کیا گیا تھا ؛ جیسا کہ کلام کو موثر اور وقیع بنانے کے لئے ایسا کرنے کا دستور ہے،
(يٰبَنِىْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ) اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے اس کے معنی عبداللہ ہیں یہ حضرت یعقوب ؑ کا دوسرا نام ہے بعض علماء نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے سوا کسی اور نبی کے نام متعدد نہیں ہیں صرف حضرت یعقوب ؑ کے دو نام ہیں یعقوب اور اسرائیل، قرآن میں اس جگہ ان کو نبی یعقوب کہہ کر خطاب نہیں کیا بلکہ دوسرے نام اسرائیل کا استعمال کیا اس میں حکمت یہ ہے کہ خود اپنے لقب اور نام ہی سے ان کو معلوم ہوجائے کہ ہم عبداللہ یعنی اللہ کے عبادت گذار بندے کی اولاد ہیں ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا چاہئے اس آیت میں بنی اسرائیل کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا کہ پورا کرو تم میرے عہد کو یعنی تم نے مجھ سے عہد کیا تھا توریت میں جس کا بیان بقول قتادہ و مجاہد اس آیت میں ہےوَلَقَدْ اَخَذَ اللّٰهُ مِيْثَاقَ بَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ ۚ وَبَعَثْنَا مِنْهُمُ اثْنَيْ عَشَرَ نَقِيْبًا (پارہ 6 سورة مائدہ، آیت نمبر 12) اس میں سب سے اہم معاہدہ تمام رسولوں پر ایمان لانے کا شامل ہے جن میں ہمارے رسول اللہ ﷺ خصوصیت سے داخل ہیں نیز نماز، زکوٰۃ، اور صدقات بھی اس عہد میں شامل ہیں جس کا خلاصہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان اور آپ کا مکمل اتباع ہے اسی لئے حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ اس عہد سے مراد محمد ﷺ کا اتباع ہے (ابن جریر بسند صحیح)
پورا کروں گا میں تمہارے عہد کو یعنی اسی آیت مذکورہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اس عہد کو پورا کریں گے تو ان کے گناہ معاف کردئیے جائیں گے اور جنت میں داخل کیا جائے گا تو حسب وعدہ ان لوگوں کو جنت کی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا،
خلاصہ یہ ہے کہ اے بنی اسرائیل تم میرا عہد محمد مصطفٰے ﷺ کے اتباع کا پورا کرو تو میں اپنا عہد تمہاری مغفرت اور جنت کا پورا کردوں گا اور صرف مجھ سے ہی ڈرو اور عوام الناس معتقدین سے نہ ڈرو کہ ان کی منشاء کے خلاف کلمہ حق کہیں گے تو وہ معتقد نہ رہیں گے آمدنی بند ہوجائے گی۔
(1) امت محمدیہ کی ایک خاص فضیلت
تفسیر قرطبی میں ہے کہ اللہ جل شانہ نے بنی اسرائیل کو اپنی نعمتیں اور احسانات یاد دلا کر اپنی یاد اور اطاعت کی طرف دعوت دی ہے اور امت محمدیہ کو جب اسی کام کے لئے دعوت دی تو احسانات و انعامات کے ذکر کے بغیر فرمایا فاذْكُرُوْنِيْٓ اَذْكُرْكُمْ یعنی تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا اس میں امت محمدی کی خاص فضیلت کی طرف اشارہ ہے کہ ان کا تعلق محسن ومنعم سے بلا واسطہ ہے یہ محسن کو پہچان کر احسان کر کے پہچانتے ہیں بخلاف دوسری امتوں کے کہ وہ احسانات کے ذریعہ محسن کو پہچانتے ہیں،
(2) ایفائے عہد واجب اور عہد شکنی حرام ہے
اس آیت سے معلوم ہوا کہ عہد ومعاہدے کو پورا کرنا ضروری ہے اور عہد شکنی حرام ہے سورة مائدہ کی پہلی آیت میں اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ یہ مضمون آیا ہےاَوْفُوْا بالْعُقُوْدِ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ عہد شکنی کرنے والوں کو جو سزا آخرت میں ملے گی اس سے پہلے ہی ایک سزا یہ دی جائے گی کہ محشر کے میدان میں جہاں تمام اولین وآخرین کا اجتماع ہوگا عہد شکنی کرنے والے پر ایک جھنڈا بطور علامت کے لگا دیا جائے گا اور جیسی بڑی عہد شکنی کی ہے اتنا ہی یہ جھنڈا بلند ہوگا اس طرح ان کو میدان حشر میں رسوا اور شرمندہ کیا جائے گا (صحیح مسلم عن سعید)
(3) جو شخص کسی گناہ یا ثواب کا سبب بنتا ہے اس پر بھی کرنے والوں کا گناہ یا ثواب لکھا جاتا ہے
Top