Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور مان لو اس کتاب کو جو میں نے اتاری ہے سچ بتانیوالی ہے اس کتاب کو جو تمہارے پاس ہے اور مت ہو سب میں اوّل منکر اس کے اور نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا اور مجھ ہی سے بچتے رہو
(اَوَّلَ كَافِرٍۢ بِهٖ) کافر ہونا خواہ سب سے پہلے ہو یا بعد میں بہرحال انتہائی ظلم اور جرم ہے مگر اس آیت میں یہ فرمایا کہ پہلے کافر نہ بنو اس میں اشارہ اس طرف ہے کہ جو شخص اول کفر اختیار کرے گا تو بعد میں اس کو دیکھ کر جو بھی کفر میں مبتلا ہوگا اس کا وبال جو اس شخص پر پڑے گا اس پہلے کافر پر بھی اس کا وبال آئے گا اس طرح یہ پہلا کافر اپنے کفر کے علاوہ بعد کے لوگوں کے کفر کا سبب بن کر ان سب کے وبال کفر کا بھی ذمہ دار ٹھہرے گا اور اس کا عذاب چند ورچند ہوجائے گا۔
فائدہاس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دنیا میں دوسروں کے لئے کسی گناہ میں مبتلا ہونے کا سبب بنتا ہے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے مبتلائے گناہ ہوں گے ان سب کا گناہ ان لوگوں کو بھی ہوگا اور اس شخص کو بھی اسی طرح جو شخص دوسروں کے لئے کسی نیکی کا سبب بن جائے تو جتنے آدمی اس کے سبب سے نیک عمل کریں گے اس کا ثواب جیسا ان لوگوں کو ملے گا ایسا ہی اس شخص کے نامہ اعمال میں بھی لکھا جائے گا قرآن مجید کی متعدد آیات اور رسول کریم ﷺ کی متعدد احادیث میں یہ مضمون بار بار آیا ہے،
(4) وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِىْ ثَـمَنًا قَلِيْلًا اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی آیات کے بدلے میں قیمت لینے کی ممانعت کا مطلب وہ ہی ہے جو آیت کے سباق وسیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کی مرضی اور ان کی اغراض کی خاطر اللہ تعالیٰ کی آیات کا مطلب غلط بتلا کر یا چھپا کر لوگوں سے پیسے لئے جائیں یہ فعل باجماع امت حرام ہے،
(5) تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے
رہا یہ معاملہ کہ کسی کو اللہ تعالیٰ کی آیات صحیح صحیح بتلا کر یا پڑھا کر اس کی اجرت لینا کیسا ہے ؟ اس کا تعلق آیت مذکورہ سے نہیں، خود یہ مسئلہ اپنی جگہ قابل غور وبحث ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت و معاوضہ لینا جائز ہے یا نہیں فقہا امت کا اس میں اختلاف ہے امام مالک شافعی، احمد بن حنبل جائز قرار دیتے ہیں اور امام اعظم ابوحنیفہ اور بعض دوسرے ائمہ منع فرماتے ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو ذریعہ کسب معاش کا بنانے سے منع فرمایا ہے ،
لیکن متاخرین حنفیہ نے بھی جب ان حالات کا مشاہدہ کیا کہ قرآن مجید کے معلمین کو اسلامی بیت المال سے گذارہ ملا کرتا تھا اب ہر جگہ اسلامی نظام میں فتور کے سبب ان معلمین کو عموماً کچھ نہیں ملتا یہ اگر آپ نے معاش کے لئے کسی محنت مزدوری یا تجارت وغیرہ میں لگ جائیں تو بچوں کو تعلیم قرآن کا سلسلہ یکسر بند ہوجائے گا کیونکہ وہ دن بھر کا مشغلہ چاہتا ہے اس لئے تعلیم قرآن پر تنخواہ لینے کو بضرورت جائز قرار دیا جیسا کہ صاحب ہدایہ نے فرمایا ہے کہ آج کل اسی پر فتویٰ دینا چاہئے کہ تعلیم قرآن پر اجرت وتنخواہ لینا جائز ہے صاحب ھدایہ کے بعد آنے والے دوسرے فقہا نے بعض ایسے ہی دوسرے وظائف جن پر تعلیم قرآن کی طرح دین کی بقاء موقوف ہے مثلاً امامت و اذان اور تعلیم حدیث وفقہ وغیرہ کو تعلیم قرآن کے ساتھ ملحق کرکے ان کی بھی اجازت دی (درمختار، شامی)
(6) ایصال ثواب کے لئے ختم قرآن پر اجرت لینا باتفاق جائز نہیں
علامہ شامی نے درمختار کی شرح میں اور اپنے رسالہ شفاء العلیل میں بڑی تفصیل اور قوی دلائل کے ساتھ یہ بات واضح کردی ہے کہ تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین فقہاء نے جائز قرار دیا ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے دین کا پورا نظام مختل ہوجاتا ہے اس لئے اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے اس لئے مردوں کو ایصال ثواب کیلئے ختم قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ حرام ہے کیونکہ اس پر کسی عام دینی ضرورت کا مدار نہیں اور اجرت لے کر پڑہناحرام ہوا تو اس طرح پڑھنے والا اور پڑھوانے والا دونوں گناہگار ہوئے اور جب پڑھنے والے ہی کو کوئی ثواب نہ ملا تو میت کو وہ کیا پہنچائے گا علامہ شامی نے اس بات پر فقہاء کی بہت سی تصریحات تاج الشریعۃ، عینی شرح ہدایہ، حاشیہ خیر الدین بر بحر الرائق وغیرہ سے نقل کی ہیں اور خیر الدین رملی کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ایصال ثواب کے لئے قبر پر قرآن پڑھوانا یا اجرت دے کر ختم قرآن کرانا صحابہ وتابعین اور اسلاف امت سے کہیں منقول نہیں اس لئے بدعت ہے (شامی ص 47، ج 1)
Top