Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 45
وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ١ؕ وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَۙ
وَاسْتَعِیْنُوْا : اور تم مدد حاصل کرو بِالصَّبْرِ : صبر سے وَالصَّلَاةِ : اور نماز وَاِنَّهَا : اور وہ لَکَبِیْرَةٌ : بڑی (دشوار) اِلَّا : مگر عَلَى : پر الْخَاشِعِیْنَ : عاجزی کرنے والے
اور مدد چاہو صبر سے اور نماز سے اور البتہ وہ بھاری ہے مگر انہی عاجزوں پر
خشوع کی حقیقت
اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْن قرآن وسنت میں جہاں خشوع کی ترغیب مذکور ہے اس سے مراد وہ قلبی سکون و انکساری ہے جو اللہ کی عظمت اور اس کے سامنے اپنی حقارت کے علم سے پیدا ہوتی ہے اس کے نتیجہ میں اطاعت آسان ہوجاتی ہے کبھی اس کے آثار بدن پر بھی ظاہر ہونے لگتے ہیں کہ وہ باادب متواضع اور شکستہ قلب نظر آتا ہے اگر دل میں خوف خدا اور تواضع نہ ہو تو خواہ وہ ظاہر میں کتنا ہی باادب اور متواضع نظر آئے وہ خشوع کا حامل نہیں۔
بلکہ آثار خشوع کا قصداً اظہار کرنا بھی پسندیدہ نہیں حضرت عمر فاروق ؓ نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ سر جھکائے بیٹھا ہے فرمایا سر اٹھا خشوع دل میں ہوتا ہے ،
حضرت ابراہیم نخعی کا ارشاد ہے کہ موٹا پہننے موٹا کھانے اور سر جھکانے کا نام خشوع نہیں خشوع تو یہ ہے کہ تم حق کے معاملہ میں شریف ورذیل کے ساتھ یکساں سلوک کرو اور اللہ نے جو تم پر فرض کیا ہے اسے اداس کرنے میں اللہ تعالیٰ کے لئے قلب کو فارغ کرلو،
حضرت حسن کا ارشاد ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ جب بات کرتے تو سنا کرتے تھے جب چلتے تو تیز چلتے اور جب مارتے تو زور سے مارتے تھے حالانکہ بلاشبہ وہ خشوع رکھنے والے تھے،
خلاصہ یہ کہ اپنے قصد واختیار سے خاشعین کی سی صورت بنانا شیطان اور نفس کا دھوکہ ہے اور مذموم ہے ہاں اگر بےاختیار یہ کیفیت ظاہر ہوجائے تو معذور ہے (قرطبی)
فائدہخشوع کے ساتھ ایک دوسرا لفظ خضوع بھی استعمال ہوتا ہے قرآن کریم میں یہ بھی بار بار آیا ہے یہ دونوں لفظ تقریباً ہم معنی ہیں لیکن خشوع کا لفظ اصل کے اعتبار سے آواز اور نگاہ کی پستی اور تذلل کے لئے بولا جاتا ہے جب کہ وہ مصنوعی نہ ہو بلکہ قلبی خوف اور تواضع کا نتیجہ ہو قرآن کریم میں ہے، خَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ (آوازیں پست ہوگئیں) اور خضوع کا لفظ بدن کی تواضع اور انکساری کے لئے استعمال ہوتا ہے قرآن حکیم میں ہے،
فَظَلَّتْ اَعْنَاقُهُمْ لَهَا خٰضِعِيْنَ (4: 26) پس ان کی گردنیں اس کے سامنے جھک گئیں،
نماز میں خشوع کی فقہی حیثیت
نماز میں خشوع کی تاکید قرآن وسنت میں بار بار آئی ہے قرآن کریم کا ارشاد ہے
وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (14: 20) اور نماز قائم کر مجھے یاد کرنے کے لئے،
اور ظاہر ہے کہ غفلت یاد کرنے کی ضد ہے جو نماز میں اللہ تعالیٰ سے غافل ہے وہ اللہ کو یاد کرنے کا فریضہ ادا نہیں کررہا ؛
ایک اور آیت میں ارشاد ہے
وَلَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِيْنَ (205: 7) اور تو غافلوں میں سے نہ ہو
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے نماز تو صرف تمسکن اور تواضع ہی ہے جس کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ جب تمسکن اور تواضع دل میں نہ ہو تو وہ نماز نہیں۔
ایک اور حدیث میں ہے کہ جس کی نماز اسے بےحیائی اور برائیوں سے نہ روک سکے وہ اللہ سے دور ہوتا جاتا ہے اور غافل کی نماز بےحیائی سے اور برائیوں سے نہیں روکتی معلوم ہوا کہ غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے والا اللہ سے دور ہی ہوتا جاتا ہے،
امام غزالی نے مذکورہ آیات و روایات اور دوسرے دلائل پیش کرکے فرمایا ہے کہ ان کا یہ تقاضا ہے کہ خشوع نماز کے لئے شرط ہو اور نماز کی صحت اس پر موقوف ہو پھر فرمایا کہ سفیان ثوری حسن بصری اور معاذ بن جبل کا مذہب یہی تھا کہ خشوع کے بغیر نماز ادا نہیں ہوتی بلکہ فاسد ہے لیکن ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء نے خشوع کو شرط صلوٰۃ قرار نہیں دیا بلکہ اسے نماز کی روح قرار دینے کے باوجود صرف اتنا شرط کیا ہے کہ تکبیر تحریمہ کے وقت قلب کو حاضر کرکے اللہ کے لئے نماز کی نیت کرے باقی نماز میں اگر خشوع حاصل نہ ہو تو اگرچہ اتنی نماز کا ثواب اسے نہیں ملے گا جتنے حصہ میں خشوع نہیں رہا لیکن فقہ کی رو سے وہ تارک صلوٰۃ نہیں کہلائے گا اور نہ اس پر تعزیر وغیرہ کے وہ احکام مرتب ہوں گے جو تارک صلوٰۃ پر لگتے ہیں،
امام غزالی نے اس کی یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ فقہاء باطنی احوال اور قلبی کیفیات پر حکم نہیں لگاتے بلکہ وہ تو صرف اعضائے ظاہرہ کے اعمال پر ظاہری احکام بیان کرتے ہیں یہ بات یہ فلاں عمل کا ثواب آخرت میں ملے گا یا نہیں یہ فقہ کی حدود سے خارج ہے تو چونکہ باطنی کیفیات پر حکم لگانا ان کی بحث سے خارج ہے اور خشوع ایک باطنی کیفیت ہے اس لئے انہوں نے خشوع کو پوری نماز میں شرط قرار نہیں دیا بلکہ خشوع کے ادنی مرتبہ کو شرط کہا اور وہ یہ کہ کم ازکم تکبیر تحریمہ کے وقت محض اللہ کی عبادت و تعظیم کی نیت کرلے،
خشوع کو پوری نماز میں شرط قرار نہ دینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کی دوسری آیات میں تشریع احکام کا یہ واضح اصول بتادیا گیا ہے کہ انسانوں پر کوئی ایسی چیز فرض نہیں کی جاتی جو ان کی طاقت و امکان سے باہر ہو، اور پوری نماز میں خشوع برقرار رکھنے سے ماسوا چند خاص افراد کے اکثر لوگ عاجز ہوتے ہیں اس لئے تکلیف مالایطاق سے بچنے کے لئے پوری نماز کے بجائے صرف ابتداء صلوٰۃ میں خشوع کو شرط قرار دے دیا گیا ،
نماز خشوع کے بغیر بھی بالکل بےفائدہ نہیں
امام غزالی آخر میں ارشاد فرماتے ہیں کہ خشوع کی اس غیر معمولی اہمیت کے باوجود ہمیں اللہ سے یہی امید ہے کہ غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے والا بھی بالکلیہ تارک صلوٰۃ کے درجہ میں نہیں کیونکہ بہرحال اس نے ادائے فرض کا اقدام تو کیا ہے اور تھوڑی سی دیر کے لئے قلب کو اللہ کے لئے فارغ بھی کیا کہ کم از کم نیت کے وقت تو صرف اللہ ہی کا دھیان تھا ایسی نماز کا کم سے کم فائدہ یہ ضرور ہے کہ اس کا نام نافرمانوں اور بےنمازوں کی فہرست سے نکل گیا،
مگر دوسری حیثیت سے یہ خوف بھی ہے کہ کہیں غافل کی حالت تارک سے بھی زیادہ بری نہ ہو، کیونکہ جو غلام آقا کی خدمت میں حاضر ہو کر آقا سے بےتوجہی برتتا اور تحقیر آمیز لہجہ میں کلام کرتا ہے اس کی حالت اس غلام سے زیادہ شدید ہے جو خدمت میں حاضر ہی نہیں ہوتا،
خلاصہ کلام یہ کہ معاملہ بیم ورجاء کا ہے عذاب کا خوف بھی ہے اور بخشش کی امید بھی اس لئے غفلت وتساہل کو چھوڑنے کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش کرتے رہنا چاہئے وما توفیقنا الا باللہ۔
Top