Maarif-ul-Quran - Al-Baqara : 95
وَ لَنْ یَّتَمَنَّوْهُ اَبَدًۢا بِمَا قَدَّمَتْ اَیْدِیْهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِالظّٰلِمِیْنَ
وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ ۔ اَبَدًا : اور وہ ہرگز اس کی آرزو نہ کریں گے۔ کبھی بِمَا : بسبب جو قَدَّمَتْ : آگے بھیجا اَيْدِیْهِمْ : ان کے ہاتھوں نے وَاللہُ : اور اللہ عَلِیْمٌ : جاننے والا بِالظَّالِمِیْنَ : ظالموں کو
اور ہرگز آرزو نہ کریں گے موت کی کبھی بسبب ان گناہوں کے کہ بھیج چکے ہیں ان کے ہاتھ اور اللہ خوب جانتا ہے گنہگاروں کو۔
خلاصہ تفسیر
اور (وہ لوگ موت کی تمنا کیا خاک کرتے) آپ (تو) ان کو حیات (دنیویہ) کا حریص (اور عام) آدمیوں سے (بھی) بڑھ کر پائیں گے اور (اوروں کا تو کیا ذکر حیرت تو یہ ہے کہ بعض) مشرکین سے بھی (بڑھ کر آپ ان کو حیات کا حریص دیکھیں گے اور ان کی یہ کیفیت ہے کہ) ان میں ایک ایک (شخص) اس ہوس میں ہے کہ اس کی عمر ہزار برس کی ہوجائے اور (بھلا بالفرض اگر اتنی عمر ہو بھی گئی تو کیا) یہ امر عذاب سے تو بچا نہیں سکتا کہ (کسی کی بڑی) عمر ہوجائے اور حق تعالیٰ کے سب پیش نظر ہیں ان کے اعمال (بد جس پر ان کو عذاب ہونے والا ہے)
فائدہاس میں حیرت استبعاد کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین عرب تو آخرت کے منکر تھے ان کی بہار اور عیش تو جو کچھ ہے دنیا ہی ہے اس لئے وہ اگر طول عمر کی تمنا کریں تو چنداں عجیب نہیں مگر یہود تو آخرت کے قائل اور بزعم خود آخرت کی نعمتوں کا اپنے آپ ہی کو مستحق کہتے تھے پھر بھی وہ دنیا میں رہنے کی تمنا کریں یہ ہے حیرت وتعجب کی بات۔
پس باوجود اعتقاد آخرت کے طول عمر کی تمنا کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ نعمت اخروی کا اپنے آپ کو مستحق سمجھنے کا دعویٰ صرف دعویٰ ہی ہے حقیقت جو ہے اس کو یہ بھی خوب جانتے ہیں کہ وہاں پہنچ کر جہنم ہی ٹھکانا بنے گا اس لئے جب تک بچے رہیں تب تک ہی سہی،
Top