Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ١ؕ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَةً١ؕ وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ
كُلُّ نَفْسٍ : ہر جی ذَآئِقَةُ : چکھنا الْمَوْتِ : موت وَنَبْلُوْكُمْ : اور ہم تمہیں مبتلا کرینگے بِالشَّرِّ : برائی سے وَالْخَيْرِ : اور بھلائی فِتْنَةً : آزمائش وَاِلَيْنَا : اور ہماری ہی طرف تُرْجَعُوْنَ : تم لوٹ کر آؤگے
ہر جی کو چکھنی ہے موت اور ہم تم کو جانچتے ہیں برائی سے اور بھلائی سے آزمانے کو اور ہماری طرف پھر کر آجاؤ گے
موت کیا چیز ہے
پھر ارشاد فرمایا كُلُّ نَفْسٍ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ ، یعنی ہر نفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ یہاں مراد ہر نفس سے نفوس ارضیہ یعنی زمینی جاندار ہیں۔ ان سب کو موت آنا لازمی ہے نفوس ملائکہ اس میں داخل نہیں، اس میں اختلاف ہے کہ قیامت کے روز فرشتوں کو بھی موت آئے گی یا نہیں ؟ بعض حضرات نے فرمایا کہ ایک لحظہ کے لئے تو سب پر موت طاری ہوجاوے گی خواہ انسان اور نفوس ارضیہ ہوں یا فرشتے اور نفوس سماویہ، بعض حضرات نے فرمایا کہ فرشتے اور جنت کے حور و غلمان موت سے مستثنیٰ ہیں۔ واللہ اعلم (روح المعانی) اور موت کی حقیقت جمہور علماء کے نزدیک روح کا جسد عنصری سے نکل جانا ہے اور روح خود ایک جسم نورانی لطیف ذی حیات متحرک کا نام ہے جو انسان کے پورے بدن میں ایسا سمایا ہوا رہتا ہے جیسے عرق گلاب اس کے پھول میں ابن قیم نے روح کی حقیقت بیان کر کے اس کو سو دلائل سے ثابت کیا ہے۔ (روح المعانی)
لفظ ذَاۗىِٕقَةُ الْمَوْتِ سے اشارہ اس طرف پایا جاتا ہے کہ ہر نفس موت کی خاص تکلیف محسوس کرے گا کیونکہ مزہ چکھنے کا محاورہ ایسے ہی مواقع میں استعمال ہوتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ روح کا جیسا اتصال بدن کے ساتھ ہے اس کے نکلنے کے وقت تکلیف اور الم کا احساس امر طبعی ہے، رہا بعض اہل اللہ کا یہ معاملہ کہ ان کو موت سے لذت و راحت حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی تنگیوں سے نجات ہوئی اور محبوب اکبر سے ملاقات کا وقت آ گیا، تو یہ ایک دوسری طرح کی لذت ہے جو مفارقت بدن کی طبعی تکلیف کے منافی نہیں کیونکہ جب کوئی بڑی راحت اور بڑا فائدہ سامنے ہوتا ہے تو اس کے لئے چھوٹی تکلیف برداشت کرنا آسان ہوجاتا ہے اس معنی کے لحاظ سے بعض اہل اللہ نے دنیا کے غم و رنج اور مصیبتوں کو بھی محبوب قرار دیا ہے کہ ”از محبت تلخہا شیریں شوند“
غم چہ استادہ تو بر در ما اندر آیار ما برادر ما
اور مولانا رومی نے فرمایا
رنج راحت شد چو مطلب شد بزرگ گرد گلہ توتیائے چشم گرگ
دنیا کی ہر تکلیف و راحت آزمائش ہے
وَنَبْلُوْكُمْ بالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً ، یعنی ہم شر اور خیر دونوں کے ذریعہ انسان کی آزمائش کرتے ہیں۔ شر سے مراد ہر خلاف طبع چیز ہے جیسے بیماری، رنج و غم، فقر و فاقہ اور خیر سے اس کے بالمقابل ہر مرغوب طبع چیز ہے جیسے صحت و عافیت، خوشی و راحت، غناء و اسباب عیش وغیرہ۔ یہ دونوں طرح کی چیزیں اس دنیا میں انسان کی آزمائش کے لئے آتی ہیں کہ شر یعنی خلاف طبع امور پر صبر کر کے اس کا حق ادا کرنا اور خیر یعنی مرغوب خاطر چیزوں پر شکر کر کے اس کا حق ادا کرنا ہے آزمائش یہ ہے کہ کون اس پر ثابت قدم رہتا ہے کون نہیں رہتا اور بزرگوں نے فرمایا کہ حقوق شکر پر ثابت قدم رہنا بہ نسبت حقوق صبر کے مشکل ہے۔ انسان کو تکلیف پر صبر کرنا اتنا بھاری نہیں ہوتا جتنا عیش و عشرت اور آرام و راحت میں اس کے حق شکر ادا کرنے پر ثابت قدمی مشکل ہوتی ہے اسی بناء پر حضرت فاروق اعظم نے فرمایا
بلینا بالضراء فصبرنا و بلینا بالسراء فلم نصبر (روح المعانی)
یعنی ہم تکلیفوں میں مبتلا کئے گئے اس پر تو ہم نے صبر کرلیا لیکن جب راحت و عیش میں مبتلا کئے گئے تو اس پر صبر نہ کرسکے یعنی اس کے حقوق ادا کرنے پر ثابت قدم نہ رہ سکے۔
Top