Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ
: اس نے کہا
بَلْ
: بلکہ
فَعَلَه
: اس نے کیا ہے
كَبِيْرُهُمْ
: ان کا بڑا
ھٰذَا
: یہ
فَسْئَلُوْهُمْ
: تو ان سے پوچھ لو
اِنْ
: اگر
كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ
: وہ بولتے ہیں
بولا نہیں پر یہ کیا ہے ان کے اس بڑے نے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں
حضرت ابراہیم ؑ کا قول جھوٹ نہیں بلکہ ایک کنایہ تھا اس کی تفصیل و تحقیق
بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ یعنی جب ابراہیم ؑ کو ان کی برادری نے گرفتار کرکے بلایا اور ان سے اقرار لینے کے لئے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے تو ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ بلکہ ان کے بڑے نے یہ کام کیا ہے تم خود ان سے دریافت کرلو اگر یہ بول سکتے ہوں۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام تو حضرت ابراہیم ؑ نے خود کیا تھا پھر اس سے انکار اور ان کے بڑے کی طرف منسوب کرنا بظاہر خلاف واقعہ ہے جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے حضرت خلیل اللہ کی شان اس سے بالا و برتر ہے۔ اس کے جواب کے لئے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کو
خلاصہ تفسیر
بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ ابراہیم ؑ کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کرلیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہوگا اور بطور فرض کے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا جھوٹ میں داخل نہیں جیسے خود قرآن میں ہے اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ یعنی اگر اللہ رحمن کے کوئی لڑکا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں داخل ہوتا۔ لیکن بےغبار اور بےتاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اختیار کیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم ؑ نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کردیا کیونکہ اس کام پر حضرت ابراہیم ؑ کو آمادہ کرنے ولا یہی بت تھا اور اس کی تخصیص شاید اس وجہ سے ہو کہ ان کی برادری اس بت کی تعظیم سب سے زیادہ کرتی تھی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی چور کی سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر کہے کہ یہ میں نے نہیں کاٹا بلکہ تیرے عمل اور تیری کجروی نے ہاتھ کاٹا ہے کیونکہ ہاتھ کاٹنے کا سبب اس کا عمل ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے عملی طور پر بھی بتوں کے توڑنے کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا تھا جیسا کہ روایات میں ہے کہ جس تبر یا کلہاڑے سے ان کے بت توڑے تھے یہ کلہاڑا بڑے بت کے مونڈھے پر یا اس کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا کہ دیکھنے والے کو یہ خیال پیدا ہو کہ اس نے ہی یہ کام کیا ہے اور قولاً بھی اس کی طرف منسوب فرمایا تو یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ انبت الربیع البقلۃ اس کی معروف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اگانے والا درحقیقت حق تعالیٰ ہے مگر اس کے ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کا بڑے بت کی طرف اس فعل کو عملاً اور قولاً منسوب کردینا جھوٹ ہرگز نہیں۔ البتہ بہت سی مصالح دینیہ کے لئے یہ توریہ اختیار فرمایا ان میں ایک مصلحت تو یہی تھی کہ دیکھنے والوں کو اس طرف توجہ ہوجائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آ گیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید حق کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت اپنے ساتھ چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارا کرے۔
دوسرے یہ کہ ان کو یہ خیال اس وقت پیدا ہونا قرین عقل ہے کہ جن کو ہم خدا اور مختار کل کہتے ہیں اگر یہ ایسے ہی ہوتے تو کوئی ان کے توڑنے پر کیسے قادر ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اگر اس فعل کو وہ بڑے بت کی طرف منسوب کردیں تو جو بت یہ کام کرسکے کہ دوسرے بتوں کو توڑ دے اس میں گویائی کی طاقت بھی ہونی چاہئے اس لئے فرمایا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ ، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے قول مذکور کو بلا تاویل کے اپنے ظاہر پر رکھ کر یہ کہا جائے کہ ابراہیم ؑ نے اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب فرمایا اور یہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا صرف ایک قسم کا توریہ ہے۔
حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت
ایک سوال اب یہ رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ان ابراہیم ؑ لم یکذب غیر ثلاث (رواہ البخاری و مسلم) یعنی حضرت ابراہیم ؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بجز تین جگہوں کے پھر ان تینوں کی تفصیل اسی حدث میں اس طرح بیان فرمائی کہ ان میں سے دو جھوٹ تو خالص اللہ کے لئے بولے گئے ایک یہی جو اس آیت میں بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ فرمایا ہے، دوسرا عید کے روز برادری سے یہ عذر کرنا کہ اِنِّىْ سَقِيْمٌ میں بیمار ہوں اور تیرا اپنی زوجہ کی حفاظت کے لئے بولا گیا) وہ یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک ایسی بستی پر گزر ہوا جہاں کا رئیس ظالم بدکار تھا جب کسی شخص کے ساتھ اس کی بیوی کو دیکھتا تو بیوی کو پکڑ لیتا اور اس سے بدکاری کرتا۔ مگر یہ معاملہ اس صورت میں نہ کرتا تھا جبکہ کوئی بیٹی اپنے باپ کے ساتھ یا بہن اپنے بھائی کے ساتھ ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ کے اس بستی میں مع اہلیہ کے پہنچنے کی مخبری اس ظالم بدکار کے سامنے کردی گئی تو اس نے حضرت سارہ کو گرفتار کر کے بلوا لیا۔ پکڑنے والوں نے ابراہیم ؑ سے پوچھا کہ یہ عورت رشتہ میں تم سے کیا تعلق رکھتی ہے ابراہیم ؑ نے ظالم کے خوف سے بچنے کے لئے یہ فرما دیا کہ یہ میری بہن ہے (یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں تیسرے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے) مگر اس کے باوجود وہ پکڑ کرلے گئے اور ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کو بھی بتلا دیا کہ میں نے تم کو اپنی بہن کہا ہے تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی رشتہ سے تم میری بہن ہو کیونکہ اس وقت اس زمین میں ہم دو ہی مسلمان ہیں اور اسلامی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ابراہیم ؑ کو مقابلے پر قدرت نہ تھی۔ اللہ کے سامنے الحاح وزاری کے لئے نماز پڑھنا شروع کردیا۔ حضرت سارہ اس کے پاس پہنچیں یہ ظالم بری نیت سے ان کی طرف بڑھا تو قدرت نے اس کو اپاہج و معذور کردیا اس پر اس نے حضرت سارہ سے درخواست کی کہ تم دعا کردو کہ میری یہ معذوری دور ہوجاوے میں تمہیں کچھ نہ کہوں گا۔ ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کو صحیح سالم کردیا مگر اس نے عہد شکنی کی اور پھر بری نیت سے ان پر ہاتھ ڈالنا چاہا پھر اللہ نے اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا اسی طرح تین مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا تو اس نے حضرت سارہ کو واپس کردیا (یہ خلاصہ مضمون حدیث کا ہے) بہرحال اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحۃً کی گئی ہے جو شان نبوت و عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی جھوٹ نہ تھا یہ توریہ تھا جو ظلم سے بچنے کے لئے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی ان کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہو سکیں، سننے والا اس سے ایک مفہوم سمجھے اور بولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کے لئے یہ تدبیر توریہ کی باتفاق فقہاء جائز ہے یہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنے سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا۔ یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحۃً مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا۔ ٹھیک اسی طرح کی توجیہ پہلے دونوں کلاموں میں ہو سکتی ہے، بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ کی توجیہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی طرح اِنِّىْ سَقِيْمٌ کا لفظ ہے کیونکہ سقیم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنے میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، ابراہیم ؑ نے اسی دوسرے معنے کے لحاظ سے اِنِّىْ سَقِيْمٌ فرمایا تھا مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنے میں سمجھا اور اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ کی ذات کے لئے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھا ورنہ گناہ کا کام اللہ کے لئے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوسکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ حقیقتہ کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہو سکتے ہوں، ایک کذب اور دوسرا صحیح ہو۔
حدیث کذبات ابراہیم ؑ کو غلط قرار دینا جہالت ہے
مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لئے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانید سے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساری امت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہوگیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہو سکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جاسکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد اور باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیا اور یہ کہہ کر فارغ ہوگئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیر معتبر ہے جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا تو اس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم ؑ کی بھول اور لغزش کو عصی اور غوی کے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ابھی سورة طلہ میں موسیٰ ؑ کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربان بارگاہ حق تعالیٰ کے لئے ادنی کمزوری اور محض رخصت اور جائز پر عمل کرلینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے حدیث شفاعت جو مشہور و معروف ہے کہ محشر میں ساری مخلوق جمع ہو کر حساب جلد ہونے کے متعلق انبیاء سے شفاعت کے طالب ہوں گے۔ آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء سے پہلے تک تمام انبیاء کے پاس پہنچیں گے ہر پیغمبر اپنے کسی قصور اور کوتاہی کا ذکر کر کے شفاعت کی ہمت نہ کرے گا، آخر میں سب خاتم الانبیاء ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ اس شفاعت کبری کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ان کلمات کو جو بطور توریہ کے کہے گئے تھے حقیقۃً کذب نہ تھے مگر پیغمبرانہ عزیمت کے خلاف تھے اپنا قصور اور کوتاہی قرار دے کر عذر کردیں گے۔ اسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حدیث میں ان کو بلفظ کذبات تعبیر کردیا گیا جس کا رسول اللہ ﷺ کو حق تھا اور آپ کی حدیث روایت کرنے اور بیان کرنے کی حد تک ہمیں بھی حق ہے مگر اپنی طرف سے کوئی حضرت ابراہیم کے بارے میں یوں کہے کہ انہوں نے جھوٹ بولا یہ جائز نہیں جیسا کہ حضرت آدم ؑ کے قصہ کے ساتھ سورة طہ کی تفسیر میں قرطبی اور بحر محیط کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ قرآن یا حدیث میں جو اس طرح کے الفاظ کسی پیغمبر کے بارے میں آئے ہیں ان کا ذکر بطور تلاوت قرآن یا تعلیم قرآن یا روایت حدیث کے تو کیا جاسکتا ہے خود اپنی طرف سے ان الفاظ کا کسی پیغمبر کی طرف منسوب کرنا بےادبی ہے جو کسی کے لئے جائز نہیں۔
حدیث مذکور میں ایک اہم ہدایت اور اخلاص عمل کی باریکی کا بیان
حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں جن کذبات ثلثہ کا ذکر آیا ہے حدیث میں ان میں سے پہلے دو کے بارے میں تو یہ آیا کہ اللہ کے لئے تھے، مگر تیسری بات جو حضرت سارہ کے بارے میں کہی گئی اس کو اللہ کے لئے نہیں فرمایا حالانکہ بیوی کی آبرو کی حفاظت بھی عین دین ہے اس پر تفسیر قرطبی میں قاضی ابوبکر بن عربی سے ایک بڑا نکتہ نقل کیا ہے جس کے متعلق ابن عربی نے فرمایا کہ یہ صلحاء و اولیاء کی کمر توڑ دینے والی بات ہے وہ یہ کہ تیسری بات بھی اگرچہ کام دین ہی کا تھا مگر اس میں کچھ اپنا حظ نفس بیوی کی عصمت اور حرم کی حفاظت کا بھی تھا، اتنی سی غرض دنیوی شامل ہوجانے کی بناء پر اس کو فی اللہ اور للہ کی فہرست سے الگ کردیا گیا کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ، یہ معاملہ بیوی کی عصمت کی حفاظت کا اگر ہماری یا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو بلاشبہ اس کو بھی للہ فی اللہ ہی میں شمار کیا جاتا مگر انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت شان کا مقام سب سے بلند ہے ان کے لئے اتنا سا حظ نفس شامل ہونا بھی اخلاص کامل کے منافی سمجھا گیا۔ واللہ اعلم وفقنا اللہ للاخلاص فی کل عمل۔
حضرت ابراہیم ؑ پر نار نمرود کے گلزار بن جانے کی حقیقت
جو لوگ معجزات اور خوارق عادات کے منکر ہیں انہوں نے تو اس میں عجیب و غریب تحریفات کی ہیں۔ بات یہ ہے کہ فلسفہ کا یہ ضابطہ کہ جو چیز کسی چیز کے لئے لازم ذات ہو وہ اس سے کسی وقت جدا نہیں ہو سکتی خود ایک باطل اور بےدلیل ضابطہ ہے حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اور تمام مخلوقات میں کوئی چیز کسی کے لازم ذات نہیں بلکہ صرف عادة اللہ یہ جاری ہے کہ آگ کے لئے حرارت اور جلانا لازم ہے، پانی کے لئے ٹھنڈا کرنا اور بجھانا لازم ہے۔ مگر یہ لازم صرف عادی ہے عقلی نہیں کیونکہ فلاسفہ بھی اس کے عقلی ہونے کی کوئی معقول دلیل نہیں پیش کرسکے اور جب یہ لازم عادی ہوا تو جب اللہ تعالیٰ کسی خاص حکمت سے کسی عادت کو بدلنا چاہتے ہیں بدل دیتے ہیں اس کے بدلنے میں کوئی عقلی محال لازم نہیں آتا جب اللہ تعالیٰ چاہے تو آگ بجھانے اور ٹھنڈا کرنے کا کام کرنے لگتی ہے اور پانی جلانے کا حالانکہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی ہوتی ہے اور پانی بھی پانی ہی ہوتا ہے مگر کسی خاص فرد یا جماعت کے حق میں بحکم خداوندی وہ اپنی خاصیت چھوڑ دیتی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کے ثبوت میں جو معجزات حق تعالیٰ ظاہر فرماتے ہیں ان سب کا حاصل یہی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دے دیا کہ ٹھنڈی ہوجا وہ ٹھنڈی ہوگئی اور اگر بَرْدًا کے ساتھ وَّسَلٰمًا کا لفظ نہ ہوتا تو آگ برف کی طرح ٹھنڈی ہو کر سبب ایذا بن جاتی اور قوم نوح جو پانی میں ڈوبی تھی ان کے بارے میں قرآن نے فرمایا اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا یعنی یہ لوگ پانی میں غرق ہو کر آگ میں داخل ہوگئے۔ حرقوة یعنی پوری برادری اور نمرود نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ان کو آگ میں جلا دیا جائے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ ایک مہینہ تک سارے شہر کے لوگ اس کام کے لئے لکڑی وغیرہ سوختہ کا سامان جمع کرتے رہے پھر اس میں آگ لگا کر سات دن تک اس کو ڈھونکتے اور بھڑکاتے رہے یہاں تک کہ اس کے شعلے فضائی آسمان میں اتنے اونچے ہوگئے کہ اگر کوئی پرندہ اس پر گزرے تو جل جائے۔ اس وقت ارادہ کیا کہ ابراہیم ؑ کو اس میں ڈالا جائے تو فکری ہوئی کہ ڈالیں کیسے اس کے پاس تک جانا کسی کے بس میں نہیں تھا شیطان نے ان کو منجنیق (گوپیا) میں رکھ کر پھینکنے کی ترکیب بتلائی۔ جس وقت اللہ کے خلیل منجنیق کے ذریعہ اس آگ کے سمندر میں پھینکے جا رہے تھے تو سب فرشتے بلکہ زمین و آسمان اور ان کی مخلوقات سب چیخ اٹھے کہ یا رب آپ کے خلیل پر کیا گزر رہی ہے حق تعالیٰ نے ان سب کو ابراہیم کی مدد کرنے کی اجازت دیدی۔ فرشتوں نے مدد کرنے کے لئے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا تو ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ میرا حال دیکھ رہا ہے۔ جبرئیل امین نے عرض کیا کہ آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں خدمت انجام دوں، جواب دیا کہ حاجت تو ہے مگر آپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف۔ (مظہری)
Top