Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 63
قَالَ بَلْ فَعَلَهٗ١ۖۗ كَبِیْرُهُمْ هٰذَا فَسْئَلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا یَنْطِقُوْنَ
قَالَ : اس نے کہا بَلْ : بلکہ فَعَلَه : اس نے کیا ہے كَبِيْرُهُمْ : ان کا بڑا ھٰذَا : یہ فَسْئَلُوْهُمْ : تو ان سے پوچھ لو اِنْ : اگر كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ : وہ بولتے ہیں
بولا نہیں پر یہ کیا ہے ان کے اس بڑے نے سو ان سے پوچھ لو اگر وہ بولتے ہیں
حضرت ابراہیم ؑ کا قول جھوٹ نہیں بلکہ ایک کنایہ تھا اس کی تفصیل و تحقیق
بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ یعنی جب ابراہیم ؑ کو ان کی برادری نے گرفتار کرکے بلایا اور ان سے اقرار لینے کے لئے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہمارے بتوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے تو ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ بلکہ ان کے بڑے نے یہ کام کیا ہے تم خود ان سے دریافت کرلو اگر یہ بول سکتے ہوں۔
یہاں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام تو حضرت ابراہیم ؑ نے خود کیا تھا پھر اس سے انکار اور ان کے بڑے کی طرف منسوب کرنا بظاہر خلاف واقعہ ہے جس کو جھوٹ کہا جاتا ہے حضرت خلیل اللہ کی شان اس سے بالا و برتر ہے۔ اس کے جواب کے لئے حضرات مفسرین نے بہت سے احتمالات بیان فرمائے ہیں ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کو خلاصہ تفسیر بیان القرآن میں اختیار کیا گیا ہے کہ ابراہیم ؑ کا یہ قول بطور فرض کے تھا یعنی تم یہ کیوں نہیں فرض کرلیتے کہ یہ کام بڑے بت نے کیا ہوگا اور بطور فرض کے کوئی خلاف واقعہ بات کہنا جھوٹ میں داخل نہیں جیسے خود قرآن میں ہے اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ ڰ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ یعنی اگر اللہ رحمن کے کوئی لڑکا ہوتا تو میں سب سے پہلے اس کی عبادت کرنے والوں میں داخل ہوتا۔ لیکن بےغبار اور بےتاویل وہ توجیہ ہے جس کو بحر محیط، قرطبی، روح المعانی وغیرہ میں اختیار کیا ہے کہ یہ اسناد مجازی ہے جو کام ابراہیم ؑ نے اپنے ہاتھ سے کیا تھا اس کو بڑے بت کی طرف بطور اسناد مجازی کے منسوب کردیا کیونکہ اس کام پر حضرت ابراہیم ؑ کو آمادہ کرنے ولا یہی بت تھا اور اس کی تخصیص شاید اس وجہ سے ہو کہ ان کی برادری اس بت کی تعظیم سب سے زیادہ کرتی تھی اس کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی چور کی سزا میں اس کا ہاتھ کاٹ دے اور پھر کہے کہ یہ میں نے نہیں کاٹا بلکہ تیرے عمل اور تیری کجروی نے ہاتھ کاٹا ہے کیونکہ ہاتھ کاٹنے کا سبب اس کا عمل ہے۔
حضرت ابراہیم ؑ نے عملی طور پر بھی بتوں کے توڑنے کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا تھا جیسا کہ روایات میں ہے کہ جس تبر یا کلہاڑے سے ان کے بت توڑے تھے یہ کلہاڑا بڑے بت کے مونڈھے پر یا اس کے ہاتھ میں رکھ دیا تھا کہ دیکھنے والے کو یہ خیال پیدا ہو کہ اس نے ہی یہ کام کیا ہے اور قولاً بھی اس کی طرف منسوب فرمایا تو یہ ایک اسناد مجازی ہے جیسے عربی کا مشہور مقولہ انبت الربیع البقلۃ اس کی معروف مثال ہے (یعنی موسم ربیع کی بارش نے کھیتی اگائی ہے) کہ اگرچہ اگانے والا درحقیقت حق تعالیٰ ہے مگر اس کے ایک ظاہری سبب کی طرف منسوب کردیا گیا ہے اور اس کو کوئی جھوٹ نہیں کہہ سکتا اسی طرح حضرت ابراہیم ؑ کا بڑے بت کی طرف اس فعل کو عملاً اور قولاً منسوب کردینا جھوٹ ہرگز نہیں۔ البتہ بہت سی مصالح دینیہ کے لئے یہ توریہ اختیار فرمایا ان میں ایک مصلحت تو یہی تھی کہ دیکھنے والوں کو اس طرف توجہ ہوجائے کہ شاید اس بڑے بت کو اس پر غصہ آ گیا ہو کہ میرے ساتھ عبادت میں ان چھوٹے بتوں کو کیوں شریک کیا جاتا ہے۔ اگر یہ خیال ان کے دلوں میں پیدا ہو تو توحید حق کا راستہ کھل جاتا ہے کہ جب ایک بڑا بت اپنے ساتھ چھوٹے بتوں کی شرکت گوارا نہیں کرتا تو رب العالمین ان پتھروں کی شرکت اپنے ساتھ کیسے گوارا کرے۔
دوسرے یہ کہ ان کو یہ خیال اس وقت پیدا ہونا قرین عقل ہے کہ جن کو ہم خدا اور مختار کل کہتے ہیں اگر یہ ایسے ہی ہوتے تو کوئی ان کے توڑنے پر کیسے قادر ہوتا۔ تیسرے یہ کہ اگر اس فعل کو وہ بڑے بت کی طرف منسوب کردیں تو جو بت یہ کام کرسکے کہ دوسرے بتوں کو توڑ دے اس میں گویائی کی طاقت بھی ہونی چاہئے اس لئے فرمایا فَسْـَٔــلُوْهُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ ، خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کے قول مذکور کو بلا تاویل کے اپنے ظاہر پر رکھ کر یہ کہا جائے کہ ابراہیم ؑ نے اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب فرمایا اور یہ اسناد مجازی کے طور پر فرمایا تو اس میں کوئی جھوٹ اور خلاف واقعہ کا شبہ نہیں رہتا صرف ایک قسم کا توریہ ہے۔
حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی طرف تین جھوٹ منسوب کرنے کی حقیقت
ایک سوال اب یہ رہ جاتا ہے کہ صحیح احادیث میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ان ابراہیم ؑ لم یکذب غیر ثلاث (رواہ البخاری و مسلم) یعنی حضرت ابراہیم ؑ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا بجز تین جگہوں کے پھر ان تینوں کی تفصیل اسی حدث میں اس طرح بیان فرمائی کہ ان میں سے دو جھوٹ تو خالص اللہ کے لئے بولے گئے ایک یہی جو اس آیت میں بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ فرمایا ہے، دوسرا عید کے روز برادری سے یہ عذر کرنا کہ اِنِّىْ سَقِيْمٌ میں بیمار ہوں اور تیرا اپنی زوجہ کی حفاظت کے لئے بولا گیا) وہ یہ کہ حضرت ابراہیم ؑ اپنی اہلیہ محترمہ حضرت سارہ کے ساتھ سفر میں تھے کہ ایک ایسی بستی پر گزر ہوا جہاں کا رئیس ظالم بدکار تھا جب کسی شخص کے ساتھ اس کی بیوی کو دیکھتا تو بیوی کو پکڑ لیتا اور اس سے بدکاری کرتا۔ مگر یہ معاملہ اس صورت میں نہ کرتا تھا جبکہ کوئی بیٹی اپنے باپ کے ساتھ یا بہن اپنے بھائی کے ساتھ ہو۔ حضرت ابراہیم ؑ کے اس بستی میں مع اہلیہ کے پہنچنے کی مخبری اس ظالم بدکار کے سامنے کردی گئی تو اس نے حضرت سارہ کو گرفتار کر کے بلوا لیا۔ پکڑنے والوں نے ابراہیم ؑ سے پوچھا کہ یہ عورت رشتہ میں تم سے کیا تعلق رکھتی ہے ابراہیم ؑ نے ظالم کے خوف سے بچنے کے لئے یہ فرما دیا کہ یہ میری بہن ہے (یہی وہ چیز ہے جس کو حدیث میں تیسرے جھوٹ سے تعبیر کیا گیا ہے) مگر اس کے باوجود وہ پکڑ کرلے گئے اور ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ کو بھی بتلا دیا کہ میں نے تم کو اپنی بہن کہا ہے تم بھی اس کے خلاف نہ کہنا اور وجہ یہ ہے کہ اسلامی رشتہ سے تم میری بہن ہو کیونکہ اس وقت اس زمین میں ہم دو ہی مسلمان ہیں اور اسلامی اخوت کا تعلق رکھتے ہیں۔ ابراہیم ؑ کو مقابلے پر قدرت نہ تھی۔ اللہ کے سامنے الحاح وزاری کے لئے نماز پڑھنا شروع کردیا۔ حضرت سارہ اس کے پاس پہنچیں یہ ظالم بری نیت سے ان کی طرف بڑھا تو قدرت نے اس کو اپاہج و معذور کردیا اس پر اس نے حضرت سارہ سے درخواست کی کہ تم دعا کردو کہ میری یہ معذوری دور ہوجاوے میں تمہیں کچھ نہ کہوں گا۔ ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے پھر اس کو صحیح سالم کردیا مگر اس نے عہد شکنی کی اور پھر بری نیت سے ان پر ہاتھ ڈالنا چاہا پھر اللہ نے اس کے ساتھ وہی معاملہ کیا اسی طرح تین مرتبہ یہ واقعہ پیش آیا تو اس نے حضرت سارہ کو واپس کردیا (یہ خلاصہ مضمون حدیث کا ہے) بہرحال اس حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کی طرف تین جھوٹ کی نسبت صراحۃً کی گئی ہے جو شان نبوت و عصمت کے خلاف ہے مگر اس کا جواب خود اسی حدیث کے اندر موجود ہے وہ یہ کہ دراصل ان میں سے ایک بھی حقیقی معنی جھوٹ نہ تھا یہ توریہ تھا جو ظلم سے بچنے کے لئے جائز و حلال ہوتا ہے وہ جھوٹ کے حکم میں نہیں ہوتا اس کی دلیل خود حدیث مذکور میں یہ ہے کہ ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ سے کہا تھا کہ میں نے تمہیں اپنی بہن بتلایا ہے تم سے پوچھا جائے تو تم بھی مجھے بھائی بتلانا اور بہن کہنے کی وجہ بھی ان کو بتلا دی کہ ہم دونوں اسلامی برادری کے اعتبار سے بہن بھائی ہیں اسی کا نام توریہ ہے کہ الفاظ ایسے بولے جائیں جن کے دو مفہوم ہو سکیں، سننے والا اس سے ایک مفہوم سمجھے اور بولنے والے کی نیت دوسرے مفہوم کی ہو اور ظلم سے بچنے کے لئے یہ تدبیر توریہ کی باتفاق فقہاء جائز ہے یہ شیعوں کے تقیہ سے بالکل مختلف چیز ہے۔ تقیہ میں صریح جھوٹ بولا جاتا ہے اور اس پر عمل بھی کیا جاتا ہے توریہ میں صریح جھوٹ نہیں ہوتا بلکہ جس معنے سے متکلم بول رہا ہے وہ بالکل صحیح اور سچ ہوتے ہیں جیسے اسلامی برادری کے لحاظ سے بھائی بہن ہونا۔ یہ وجہ تو خود حدیث مذکور کے الفاظ میں صراحۃً مذکور ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ درحقیقت کذب نہ تھا بلکہ ایک توریہ تھا۔ ٹھیک اسی طرح کی توجیہ پہلے دونوں کلاموں میں ہو سکتی ہے، بَلْ فَعَلَه ٗٗ ڰ كَبِيْرُهُمْ کی توجیہ ابھی اوپر لکھی گئی ہے کہ اس میں بطور اسناد مجازی اس فعل کو بڑے بت کی طرف منسوب کیا ہے۔ اسی طرح اِنِّىْ سَقِيْمٌ کا لفظ ہے کیونکہ سقیم کا لفظ جس طرح ظاہری طور پر بیمار کے معنے میں آتا ہے اسی طرح رنجیدہ و غمگین اور مضمحل ہونے کے معنی میں بھی بولا جاتا ہے، ابراہیم ؑ نے اسی دوسرے معنے کے لحاظ سے اِنِّىْ سَقِيْمٌ فرمایا تھا مخاطبوں نے اس کو بیماری کے معنے میں سمجھا اور اسی حدیث میں جو یہ الفاظ آئے ہیں کہ ان تین کذبات میں دو اللہ کی ذات کے لئے تھے یہ خود قرینہ قویہ اس کا ہے کہ یہ کوئی گناہ کا کام نہ تھا ورنہ گناہ کا کام اللہ کے لئے کرنے کا کوئی مطلب ہی نہیں ہوسکتا اور گناہ کا کام نہ ہونا جبھی ہوسکتا ہے جبکہ وہ حقیقتہ کذب نہ ہو بلکہ ایسا کلام ہو جس کے دو معنی ہو سکتے ہوں، ایک کذب اور دوسرا صحیح ہو۔
حدیث کذبات ابراہیم ؑ کو غلط قرار دینا جہالت ہے
مرزا قادیانی اور کچھ دوسرے مستشرقین سے مغلوب مسلمانوں نے اس حدیث کو باوجود صحیح السند ہونے کے اس لئے غلط اور باطل کہہ دیا کہ اس سے حضرت خلیل اللہ کی طرف جھوٹ کی نسبت ہوتی ہے اور سند کے سارے راویوں کو جھوٹا کہہ دینا اس سے بہتر ہے کہ خلیل اللہ کو جھوٹا قرار دیا جائے کیونکہ وہ قرآن کے خلاف ہے اور پھر اس سے ایک کلیہ قاعدہ یہ نکال لیا کہ جو حدیث قرآن کے خلاف ہو خواہ وہ کتنی ہی قوی اور صحیح اور معتبر اسانید سے ثابت ہو وہ غلط قرار دی جائے یہ بات اپنی جگہ تو بالکل صحیح اور ساری امت کے نزدیک بطور فرض محال کے مسلم ہے مگر علماء امت نے تمام ذخیرہ احادیث میں اپنی عمریں صرف کر کے ایک ایک حدیث کو چھان لیا ہے جس حدیث کا ثبوت قوی اور صحیح اسانید سے ہوگیا ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہو سکتی کہ جس کو قرآن کے خلاف کہا جاسکے بلکہ وہ اپنی کم فہمی یا کج فہمی کا نتیجہ ہوتا ہے کہ جس حدیث کو رد اور باطل کرنا چاہا اس کو قرآن سے ٹکرا دیا اور یہ کہہ کر فارغ ہوگئے کہ یہ حدیث خلاف قرآن ہونے کے سبب غیر معتبر ہے جیسا کہ اسی حدیث میں آپ دیکھ چکے ہیں کہ الفاظ کذبات سے توریہ مراد ہونا خود حدیث کے اندر موجود ہے رہا یہ معاملہ کہ پھر حدیث میں توریہ کو کذبات کے لفظ سے کیوں تعبیر کیا گیا تو اس کی وجہ وہی ہے جو حضرت آدم ؑ کی بھول اور لغزش کو عصی اور غوی کے الفاظ سے تعبیر کرنے کی ابھی سورة طلہ میں موسیٰ ؑ کے قصہ میں گزر چکی ہے کہ مقربان بارگاہ حق تعالیٰ کے لئے ادنی کمزوری اور محض رخصت اور جائز پر عمل کرلینا اور عزیمت کو چھوڑ دینا بھی قابل مواخذہ سمجھا جاتا ہے اور ایسی چیزوں پر قرآن میں حق تعالیٰ کا عتاب انبیاء کے بارے میں بکثرت منقول ہے حدیث شفاعت جو مشہور و معروف ہے کہ محشر میں ساری مخلوق جمع ہو کر حساب جلد ہونے کے متعلق انبیاء سے شفاعت کے طالب ہوں گے۔ آدم ؑ سے لے کر خاتم الانبیاء سے پہلے تک تمام انبیاء کے پاس پہنچیں گے ہر پیغمبر اپنے کسی قصور اور کوتاہی کا ذکر کر کے شفاعت کی ہمت نہ کرے گا، آخر میں سب خاتم الانبیاء ؑ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور آپ اس شفاعت کبری کے لئے کھڑے ہوں گے۔ اس حدیث میں حضرت ابراہیم خلیل اللہ ان کلمات کو جو بطور توریہ کے کہے گئے تھے حقیقۃً کذب نہ تھے مگر پیغمبرانہ عزیمت کے خلاف تھے اپنا قصور اور کوتاہی قرار دے کر عذر کردیں گے۔ اسی کوتاہی کی طرف اشارہ کرنے کے لئے حدیث میں ان کو بلفظ کذبات تعبیر کردیا گیا جس کا رسول اللہ ﷺ کو حق تھا اور آپ کی حدیث روایت کرنے اور بیان کرنے کی حد تک ہمیں بھی حق ہے مگر اپنی طرف سے کوئی حضرت ابراہیم کے بارے میں یوں کہے کہ انہوں نے جھوٹ بولا یہ جائز نہیں جیسا کہ حضرت آدم ؑ کے قصہ کے ساتھ سورة طہ کی تفسیر میں قرطبی اور بحر محیط کے حوالہ سے بیان ہوچکا ہے کہ قرآن یا حدیث میں جو اس طرح کے الفاظ کسی پیغمبر کے بارے میں آئے ہیں ان کا ذکر بطور تلاوت قرآن یا تعلیم قرآن یا روایت حدیث کے تو کیا جاسکتا ہے خود اپنی طرف سے ان الفاظ کا کسی پیغمبر کی طرف منسوب کرنا بےادبی ہے جو کسی کے لئے جائز نہیں۔
حدیث مذکور میں ایک اہم ہدایت اور اخلاص عمل کی باریکی کا بیان
حدیث میں حضرت ابراہیم ؑ کے بارے میں جن کذبات ثلثہ کا ذکر آیا ہے حدیث میں ان میں سے پہلے دو کے بارے میں تو یہ آیا کہ اللہ کے لئے تھے، مگر تیسری بات جو حضرت سارہ کے بارے میں کہی گئی اس کو اللہ کے لئے نہیں فرمایا حالانکہ بیوی کی آبرو کی حفاظت بھی عین دین ہے اس پر تفسیر قرطبی میں قاضی ابوبکر بن عربی سے ایک بڑا نکتہ نقل کیا ہے جس کے متعلق ابن عربی نے فرمایا کہ یہ صلحاء و اولیاء کی کمر توڑ دینے والی بات ہے وہ یہ کہ تیسری بات بھی اگرچہ کام دین ہی کا تھا مگر اس میں کچھ اپنا حظ نفس بیوی کی عصمت اور حرم کی حفاظت کا بھی تھا، اتنی سی غرض دنیوی شامل ہوجانے کی بناء پر اس کو فی اللہ اور للہ کی فہرست سے الگ کردیا گیا کیونکہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے اَلَا لِلّٰهِ الدِّيْنُ الْخَالِصُ ، یہ معاملہ بیوی کی عصمت کی حفاظت کا اگر ہماری یا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو بلاشبہ اس کو بھی للہ فی اللہ ہی میں شمار کیا جاتا مگر انبیاء (علیہم السلام) کی عظمت شان کا مقام سب سے بلند ہے ان کے لئے اتنا سا حظ نفس شامل ہونا بھی اخلاص کامل کے منافی سمجھا گیا۔ واللہ اعلم وفقنا اللہ للاخلاص فی کل عمل۔
حضرت ابراہیم ؑ پر نار نمرود کے گلزار بن جانے کی حقیقت
جو لوگ معجزات اور خوارق عادات کے منکر ہیں انہوں نے تو اس میں عجیب و غریب تحریفات کی ہیں۔ بات یہ ہے کہ فلسفہ کا یہ ضابطہ کہ جو چیز کسی چیز کے لئے لازم ذات ہو وہ اس سے کسی وقت جدا نہیں ہو سکتی خود ایک باطل اور بےدلیل ضابطہ ہے حقیقت یہ ہے کہ اس دنیا میں اور تمام مخلوقات میں کوئی چیز کسی کے لازم ذات نہیں بلکہ صرف عادة اللہ یہ جاری ہے کہ آگ کے لئے حرارت اور جلانا لازم ہے، پانی کے لئے ٹھنڈا کرنا اور بجھانا لازم ہے۔ مگر یہ لازم صرف عادی ہے عقلی نہیں کیونکہ فلاسفہ بھی اس کے عقلی ہونے کی کوئی معقول دلیل نہیں پیش کرسکے اور جب یہ لازم عادی ہوا تو جب اللہ تعالیٰ کسی خاص حکمت سے کسی عادت کو بدلنا چاہتے ہیں بدل دیتے ہیں اس کے بدلنے میں کوئی عقلی محال لازم نہیں آتا جب اللہ تعالیٰ چاہے تو آگ بجھانے اور ٹھنڈا کرنے کا کام کرنے لگتی ہے اور پانی جلانے کا حالانکہ آگ اپنی حقیقت میں آگ ہی ہوتی ہے اور پانی بھی پانی ہی ہوتا ہے مگر کسی خاص فرد یا جماعت کے حق میں بحکم خداوندی وہ اپنی خاصیت چھوڑ دیتی ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) کی نبوت کے ثبوت میں جو معجزات حق تعالیٰ ظاہر فرماتے ہیں ان سب کا حاصل یہی ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دے دیا کہ ٹھنڈی ہوجا وہ ٹھنڈی ہوگئی اور اگر بَرْدًا کے ساتھ وَّسَلٰمًا کا لفظ نہ ہوتا تو آگ برف کی طرح ٹھنڈی ہو کر سبب ایذا بن جاتی اور قوم نوح جو پانی میں ڈوبی تھی ان کے بارے میں قرآن نے فرمایا اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا یعنی یہ لوگ پانی میں غرق ہو کر آگ میں داخل ہوگئے۔ حرقوة یعنی پوری برادری اور نمرود نے یہ فیصلہ کرلیا کہ ان کو آگ میں جلا دیا جائے۔ تاریخی روایات میں ہے کہ ایک مہینہ تک سارے شہر کے لوگ اس کام کے لئے لکڑی وغیرہ سوختہ کا سامان جمع کرتے رہے پھر اس میں آگ لگا کر سات دن تک اس کو ڈھونکتے اور بھڑکاتے رہے یہاں تک کہ اس کے شعلے فضائی آسمان میں اتنے اونچے ہوگئے کہ اگر کوئی پرندہ اس پر گزرے تو جل جائے۔ اس وقت ارادہ کیا کہ ابراہیم ؑ کو اس میں ڈالا جائے تو فکری ہوئی کہ ڈالیں کیسے اس کے پاس تک جانا کسی کے بس میں نہیں تھا شیطان نے ان کو منجنیق (گوپیا) میں رکھ کر پھینکنے کی ترکیب بتلائی۔ جس وقت اللہ کے خلیل منجنیق کے ذریعہ اس آگ کے سمندر میں پھینکے جا رہے تھے تو سب فرشتے بلکہ زمین و آسمان اور ان کی مخلوقات سب چیخ اٹھے کہ یا رب آپ کے خلیل پر کیا گزر رہی ہے حق تعالیٰ نے ان سب کو ابراہیم کی مدد کرنے کی اجازت دیدی۔ فرشتوں نے مدد کرنے کے لئے حضرت ابراہیم سے دریافت کیا تو ابراہیم ؑ نے جواب دیا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ میرا حال دیکھ رہا ہے۔ جبرئیل امین نے عرض کیا کہ آپ کو میری کسی مدد کی ضرورت ہے تو میں خدمت انجام دوں، جواب دیا کہ حاجت تو ہے مگر آپ کی طرف نہیں بلکہ اپنے رب کی طرف۔ (مظہری)
Top