Maarif-ul-Quran - Al-Anbiyaa : 83
وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَۚۖ
وَ : اور اَيُّوْبَ : ایوب اِذْ نَادٰي : جب اس نے پکارا رَبَّهٗٓ : اپنا رب اَنِّىْ : کہ میں مَسَّنِيَ : مجھے پہنچی ہے الضُّرُّ : تکلیف وَاَنْتَ : اور تو اَرْحَمُ : سب سے بڑا رحم کرنیوالا الرّٰحِمِيْنَ : رحم کرنے والے
اور ایوب کو جس وقت پکارا اس نے اپنے رب کو کہ مجھ پر پڑی ہے تکلیف اور تو ہے سب رحم والوں سے رحم والا
خلاصہ تفسیر
اور ایوب (علیہ السلام کے قصے کا تذکرہ کیجئے جب کہ انہوں نے (مرض شدید میں مبتلا ہونے کے بعد) اپنے رب کو پکارا کہ مجھ کو یہ تکلیف پہنچ رہی ہے اور آپ سب مہربانوں سے زیادہ مہربان ہیں (تو اپنی مہربانی سے میری یہ تکلیف دور کر دیجئے) تو ہم نے ان کی دعا قبول کی اور ان کو جو تکلیف تھی اس کو دور کردیا اور (بغیر ان کی درخواست کے) ہم نے ان کا کنبہ (یعنی اولاد جو ان سے غائب ہوگئے تھے (قالہ الحسن کذا فی الدار المنثور) یا مر گئے تھے (کما قال غیرہ) عطا فرمایا (اس طرح سے کہ وہ اس کے پاس آگئے یا بایں معنی کہ اتنے ہی اور پیدا ہوگئے، قالہ عکرمہ کما فی فتح المنان) اور ان کے ساتھ (گنتی میں) ان کے برابر اور بھی (دیئے، یعنی جتنی اولاد پہلے تھی اس کے برابر اور بھی دے دیے خواہ خود اپنی صلب سے یا اولاد کی اولاد ہونے کی حیثیت سے) (کذا فی فتح المنان من کتاب ایوب) اپنی رحمت خاصہ کے سبب سے اور عبادت کرنے والوں کے لئے ایک یادگار رہنے کے سبب سے۔

معارف و مسائل
قصہ ایوب ؑ
حضرت ایوب ؑ کے قصہ میں اسرائیلی روایات بڑی طویل ہیں، ان میں سے جن کو حضرات محدثین نے تاریخی درجہ میں قابل اعتماد سمجھا ہے وہ نقل کی جاتی ہیں۔ قرآن کریم سے تو صرف اتنی بات ثابت ہے کہ ان کو کوئی شدید مرض پیش آیا جس پر وہ صبر کرتے رہے بالآخر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس سے نجات ملی اور یہ کہ اس بیماری کے زمانے میں ان کی اولاد اور احباب سب غائب ہوگئے خواہ موت کی وجہ سے یا کسی دوسری وجہ سے، پھر حق تعالیٰ نے ان کو صحت و عافیت دی اور جتنی اولاد تھی وہ سب ان کو دے دی بلکہ اتنی ہی اور بھی زیادہ دیدی، باقی حصے کے اجزاء بعض تو مستند احادیث میں موجود ہیں اور زیادہ تر تاریخی روایات ہیں حافظ ابن کثیر نے اس قصے کی تفصیل یہ لکھی ہے کہ
ایوب ؑ کو حق تعالیٰ نے ابتداء میں مال و دولت اور جائیداد اور شاندار مکانات اور سواریاں اور اولاد اور حشم و خدم بہت کچھ عطا فرمایا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو پیغمبرانہ آزمائش میں مبتلا کیا یہ سب چیزیں ان کے ہاتھ سے نکل گئی اور بدن میں بھی ایسی سخت بیماری لگ گئی جیسے جذام ہوتا ہے کہ بدن کا کوئی حصہ بجز زبان اور قلب کے اس بیماری سے نہ بچا وہ اس حالت میں زبان و قلب کو اللہ کی یاد میں مشغول رکھتے اور شکر ادا کرتے رہتے تھے۔ اس شدید بیماری کی وجہ سے سب عزیزوں، دوستوں اور پڑوسیوں نے ان کو الگ کر کے آبادی سے باہر ایک کوڑا کچرہ ڈالنے کی جگہ پر ڈال دیا۔ کوئی ان کے پاس نہ جاتا تھا صرف ان کی بیوی ان کی خبر گیری کرتی تھی جو حضرت یوسف ؑ کی بیٹی یا پوتی تھی جس کا نام لیّا بنت میشا ابن یوسف ؑ بتلایا جاتا ہے (ابن کثیر) مال و جائیداد تو سب ختم ہوچکا تھا ان کی زوجہ محترمہ محنت مزدوری کر کے اپنے اور ان کے لئے رزق اور ضروریات فراہم کرتی اور ان کی خدمت کرتی تھیں۔ ایوب ؑ کا یہ ابتلاء و امتحان کوئی حیرت و تعجب کی چیز نہیں، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اشد الناس بلاء الانبیاء ثم الصالحون ثم الامثل فالامثل، یعنی سب سے زیادہ سخت بلائیں اور آزمائشیں انبیاء (علیہم السلام) کو پیش آتی ہیں ان کے بعد دوسرے صالحین کو درجہ بدرجہ۔ اور ایک روایت میں ہے کہ ہر انسان کا ابتلاء اور آزمائش اس کی دینی صلابت اور مضبوطی کے اندازے پر ہوتا ہے جو دین میں جتنا زیادہ مضبوط ہوتا ہے اتنی اس کی آزمائش و ابتلاء زیادہ ہوتی ہے (تاکہ اسی مقدار سے اس کے درجات اللہ کے نزدیک بلند ہوں) حضرت ایوب ؑ کو حق تعالیٰ نے زمرہ انبیاء (علیہم السلام) میں دینی صلابت اور صبر کا ایک امتیازی مقام عطا فرمایا تھا (جیسے داؤد ؑ کو شکر کا ایسا ہی امتیاز دیا گیا تھا) مصائب و شدائد پر صبر میں حضرت ایوب ؑ ضرب المثل ہیں۔ یزید بن میسرہ فرماتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ایوب ؑ کو مال و اولاد وغیرہ سب دنیا کی نعمتوں سے خالی کر کے آزمائش فرمائی تو انہوں نے فارغ ہو کر اللہ کی یاد اور عبادت میں اور زیادہ محنت شروع کردی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے میرے پروردگار میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے مال جائیداد اور دولت دنیا اور اولاد عطا فرمائی جس کی محبت میرے دل کے ایک ایک جزء پر چھا گئی پھر اس پر بھی شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے مجھے ان سب چیزوں سے فارغ اور خالی کردیا اور اب میرے اور آپ کے درمیان حائل ہونے والی کوئی چیز باقی نہ رہی۔
حافظ ابن کثیر یہ مذکورہ روایات نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وہب بن منبہ سے اس قصہ میں بڑی طویل روایات منقول ہیں جن میں غرابت پائی جاتی ہے اور طویل ہیں اس لئے ہم نے ان کو چھوڑ دیا ہے۔
حضرت ایوب ؑ کی دعا صبر کے خلاف نہیں
حضرت ایوب ؑ اس شدید بلاء میں کہ سب مال و جائیداد اور دولت و دنیا سے الگ ہو کر ایسی جسمانی بیماری میں مبتلا ہوئے کہ لوگ پاس آتے ہوئے گھبرائیں، بستی سے باہر ایک کوڑے کچرے کی جگہ پر سات سال چند ماہ پڑے رہے کبھی جزع و فزع یا شکایت کا کوئی کلمہ زبان پر نہیں آیا۔ نیک بی بی لیّا زوجہ محترمہ نے عرض بھی کیا کہ آپ کی تکلیف بہت بڑھ گئی ہے اللہ سے دعا کیجئے کہ یہ تکلیف دور ہوجائے تو فرمایا کہ میں نے ستر سال صحیح تندرست اللہ کی بیشمار نعمت و دولت میں گزارے ہیں کیا اس کے مقابلے میں سات سال بھی مصیبت کے گزرنے مشکل ہیں۔ پیغمبرانہ عزم و ضبط اور صبر و ثبات کا یہ عالم تھا کہ دعا کرنے کی بھی ہمت نہ کرتے تھے کہ کہیں صبر کے خلاف نہ ہوجائے (حالانکہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا اور اپنی احتیاج و تکلیف پیش کرنا بےصبری میں داخل نہیں) بالآخر کوئی ایسا سبب پیش آیا جس نے ان کو دعا کرنے پر مجبور کردیا اور جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے یہ دعا دعا ہی تھی کوئی بےصبری نہیں تھی حق تعالیٰ نے ان کے کمال صبر پر اپنے کلام میں مہر ثبت فرما دی ہے فرمایا اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا اس سبب کے بیان میں روایات بہت مختلف اور طویل ہیں اس لئے ان کو چھوڑا جاتا ہے۔
ابن ابی حاتم نے حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کیا ہے کہ (جب ایوب ؑ کی دعا قبول ہوئی اور ان کو حکم ہوا کہ زمین پر ایڑ لگائیے یہاں سے صاف پانی کا چشمہ پھوٹے گا اس سے غسل کیجئے اور اس کا پانی پیجئے تو یہ سارا روگ چلا جائے گا۔ حضرت ایوب نے اس کے مطابق کیا تمام بدن جو زخموں سے چور تھا اور بجز ہڈیوں کے کچھ نہ رہا تھا اس چشمہ کے پانی سے غسل کرتے ہی سارا بدن کھال اور بال یکایک اپنی اصلی حالت پر آگئے تو) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے جنت کا ایک لباس بھیج دیا وہ زیب تن فرمایا اور اس کوڑے کچرے سے الگ ہو کر ایک گوشہ میں بیٹھ گئے۔ زوجہ محترمہ حسب عادت ان کی خبر گیری کے لئے آئی تو ان کو اپنی جگہ پر نہ پا کر رونے لگی۔ ایوب ؑ جو ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے تھے ان کو نہیں پہچانا کہ حالت بدل چکی تھی، انہیں سے پوچھا کہ اے خدا کے بندے (کیا تمہیں معلوم ہے کہ) وہ بیمار مبتلا جو یہاں پڑا رہتا تھا کہاں چلا گیا، کیا کتوں یا بھیڑیوں نے اسے کھالیا ؟ اور کچھ دیر تک اس معاملے میں ان سے گفتگو کرتی رہی۔ یہ سب سن کر ایوب ؑ نے ان کو بتلایا کہ میں ہی ایوب ہوں مگر زوجہ محترمہ نے اب تک بھی نہیں پہچانا۔ کہنے لگی اللہ کے بندے کیا آپ میرے ساتھ تمسخر کرتے ہیں تو ایوب ؑ نے پھر فرمایا کہ غور کرو میں ہی ایوب ہوں اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول فرما لی اور میرا بدن ازسرنو درست فرما دیا۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ان کا مال و دولت بھی ان کو واپس دے دیا اور اولاد بھی، اور اولاد کی تعداد کے برابر مزید اولاد بھی دے دی (ابن کثیر)
ابن مسعود نے فرمایا کہ حضرت ایوب ؑ کے سات لڑکے سات لڑکیاں تھیں اس ابتلاء کے زمانے میں یہ سب مر گئے تھے، جب اللہ نے ان کو عافیت دی تو ان کو بھی دوبارہ زندہ کردیا اور ان کی اہلیہ سے نئی اولاد بھی اتنی ہی اور پیدا ہوگئی جس کو قرآن میں وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ فرمایا ہے۔ ثعلبی نے کہا کہ یہ قول ظاہر آیت قرآن کے ساتھ اقرب ہے۔ (قرطبی)
بعض حضرات نے فرمایا کہ نئی اولاد خود اپنے سے اتنی ہی مل گئی جتنی پہلے تھی اور ان کے مثل اولاد سے مراد اولاد کی اولاد ہے۔ واللہ اعلم
Top