Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 15
مَنْ كَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَهُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَآءِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ هَلْ یُذْهِبَنَّ كَیْدُهٗ مَا یَغِیْظُ
مَنْ : جو كَانَ يَظُنُّ : گمان کرتا ہے اَنْ : کہ لَّنْ يَّنْصُرَهُ : ہرگز اس کی مدد نہ کریگا اللّٰهُ : اللہ فِي الدُّنْيَا : دنیا میں وَالْاٰخِرَةِ : اور آخرت فَلْيَمْدُدْ : تو اسے چاہیے کہ تانے بِسَبَبٍ : ایک رسی اِلَى السَّمَآءِ : آسمان کی طرف ثُمَّ : پھر لْيَقْطَعْ : اسے کاٹ ڈالے فَلْيَنْظُرْ : پھر دیکھے هَلْ : کیا يُذْهِبَنَّ : دور کردیتی ہے كَيْدُهٗ : اس کی تدبیر مَا يَغِيْظُ : جو غصہ دلا رہی ہے
جس کو یہ خیال ہو کہ ہرگز نہ مدد کرے گا اس کی اللہ دنیا میں اور آخرت میں تو تان لے ایک رسی آسمان کو پھر کاٹ ڈالے اب دیکھے کچھ جاتا رہا اس کی اس تدبیر سے اس کا غصہ
معارف و مسائل
مَنْ كَانَ يَظُنُّ ، حاصل یہ ہے کہ اسلام کا راستہ روکنے والے معاند جو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے ان کو سمجھنا چاہئے کہ یہ تو جبھی ہوسکتا ہے جبکہ معاذ اللہ آنحضرت ﷺ سے منصب نبوت سلب ہوجائے اور آپ پر وحی آنا منقطع ہوجائے کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کو نبوت و رسالت سپرد فرماتا ہے اور اس کو وحی الٰہی سے نوازتا ہے اس کی مدد تو دنیا و آخرت میں کرنے کا اس کی طرف سے پختہ عہد ہے اور عقلاً بھی اس کے خلاف نہ ہونا چاہئے تو جو شخص آپ کی اور آپ کے دین کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے اس کو اگر اس کے قبضہ میں ہو تو ایسی تدبیر کرنا چاہئے کہ یہ منصب نبوت سلب ہوجائے اور وحی الٰہی منقطع ہوجائے۔ اس مضمون کو ایک فرض محال کے عنوان سے اس طرح تعبیر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے وحی کو منقطع کرنے کا کام کرنا چاہتا ہے تو کسی طرح آسمان پر پہنچے وہاں جا کر اس سلسلہ وحی کو ختم کر دے۔ اور ظاہر ہے کہ نہ کسی کا اس طرح آسمان پر جانا ممکن نہ اللہ تعالیٰ سے قطع وحی کو کہنا ممکن تو پھر جب تدبیر کوئی کارگر نہیں تو اسلام و ایمان کے خلاف غیظ و غضب کا کیا نتیجہ ؟ یہ تفسیر بعینہ در منثور میں ابن زید سے روایت کی ہے اور میرے نزدیک یہ سب سے بہتر اور صاف تفسیر ہے (بیان القران مع تسھیل)
قرطبی نے اسی تفسیر کو ابن جعفر نحاس سے نقل کر کے فرمایا کہ یہ سب سے احسن تفسیر ہے اور حضرت ابن عباس سے بھی اس تفسیر کو نقل کیا ہے۔ اور بعض حضرات نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ سماء سے مراد اپنے مکان کی چھت ہے اور مراد آیت کی یہ ہے کہ اگر کسی معاند جاہل کی خواہش یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول اور اس کے دین کی مدد نہ کرے اور وہ اسلام کے خلاف غیظ و غضب لئے ہوئے ہے تو سمجھ لے کہ اس کی یہ مراد تو کبھی پوری نہ ہوگی اس احمقانہ غیظ و غضب کا تو علاج یہی ہے کہ چھت میں رسی ڈال کر پھانسی لے لے اور مر جائے۔ (مظہری وغیرہ)
Top