Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 29
ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَهُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ
ثُمَّ : پھر لْيَقْضُوْا : چاہیے کہ دور کریں تَفَثَهُمْ : اپنا میل کچیل وَلْيُوْفُوْا : اور پوری کریں نُذُوْرَهُمْ : اپنی نذریں وَلْيَطَّوَّفُوْا : اور طواف کریں بِالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ : قدیم گھر
پھر چاہئے کہ ختم کردیں اپنا میل کچیل اور پوری کردیں اپنی منتیں اور طواف کریں اس قدیم گھر کا۔
ثُمَّ لْيَقْضُوْا تَفَثَهُمْ ، تفث کے لغوی معنے میل کچیل کے ہیں جو انسان کے بدن پر جمع ہوجاتا ہے حالت احرام میں چونکہ بالوں کا مونڈنا، کاٹنا، نوچنا اسی طرح ناخن تراشنا، خوشبو لگانا یہ سب چیزیں حرام ہوتی ہیں تو ان کے نیچے میل کچیل جمع ہونا طبعی امر ہے اس آیت میں یہ فرمایا کہ جب حج میں قربانی سے فارغ ہوجاؤ تو اس میل کچیل کو دور کرو مطلب یہ ہے کہ اب احرام کھول ڈالو اور سر منڈا لو ناخن تراشو۔ زیر ناف کے بال صاف کرلو۔ آیت مذکورہ میں پہلے قربانی کرنے کا ذکر آیا اس کے بعد احرام کھولنے کا اس سے مستفاد ہوتا ہے کہ اسی ترتیب سے کام کرنا چاہئے قربانی سے پہلے حلق کرنا یا ناخن کاٹنا وغیرہ ممنوع ہے اور جو ایسا کرے گا اس پر دم جنایت واجب ہوگا۔
افعال حج میں ترتیب کا درجہ
جو ترتیب افعال حج کی قرآن و حدیث میں آئی اور فقہاء نے اس کو منضبط کیا اسی ترتیب سے افعال حج ادا کرنا باتفاق امت کم از کم سنت ضرور ہے واجب ہونے میں اختلاف ہے امام اعظم ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک واجب ہے جس کے خلاف کرنے سے ایک دم جنایت لازم ہوتا ہے۔ امام شافعی کے نزدیک سنت ہے اس لئے اس کے خلاف کرنے سے ثواب میں کمی آتی ہے مگر دم لازم نہیں ہوتا۔ حضرت ابن عباس کی حدیث میں ہے من قدم شیئاً من نسکہ او اخرہ فلیھرق دما رواہ ابن ابی شیبة موقوفا و ھو فی حکم المرفوع (مظھری) یعنی جس شخص نے افعال حج میں سے کسی کو مقدم یا موخر کردیا اس پر لازم ہے کہ ایک دم دے۔ یہ روایت طحاوی نے بھی مختلف طرق سے نقل کی ہے اور حضرت سعید بن جبیر، قتادہ، نخفی، حسن بصری رحمہم اللہ کا بھی یہی مذہب ہے کہ خلاف ترتیب کرنے والے پر دم لازم کرتے ہیں۔ تفسیر مظہری میں اس جگہ اس مسئلہ کی پوری تفصیل و تحقیق مذکور ہے۔ نیز دوسرے مسائل حج بھی مفصل لکھے ہیں۔
وَلْيُوْفُوْا نُذُوْرَهُمْ ، نذور، نذر کی جمع ہے جس کو اردو میں منت کہا جاتا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ جو کام شرعاً کسی شخص پر لازم، واجب نہیں تھا اگر وہ زبان سے یہ نذر کرلے اور منت مان لے کہ میں یہ کام کروں گا یا اللہ کے لئے مجھ پر لازم ہے کہ فلاں کام کروں تو یہ نذر ہوجاتی ہے۔ جس کا حکم یہ ہے کہ اس کا پورا کرنا واجب ہوجاتا ہے اگرچہ اصل سے واجب نہیں تھا مگر اس کے واجب ہوجانے کے لئے یہ شرط تو باتفاق امت ہے کہ وہ کام شرعاً گناہ اور ناجائز نہ ہو۔ اگر کسی شخص نے گناہ کے کام کی نذر مان لی تو اس پر وہ گناہ کرنا اس سے لازم نہیں ہوجاتا ہے بلکہ اس کے خلاف کرنا واجب ہے البتہ اس پر کفارہ قسم لازم ہوجائے گا۔ اور ابوحنیفہ وغیرہ ائمہ فقہاء کے نزدیک یہ بھی شرط ہے کہ وہ کام ایسا ہو جس کی جنس میں کوئی عبادت مقصودہ شرعیہ پائی جاتی ہو جیسے نماز، روزہ، صدقہ، قربانی وغیرہ کہ ان کی جنس میں کچھ شرعی واجبات اور عبادت مقصودہ ہیں۔ تو اگر کوئی شخص نفلی نماز روزے صدقہ وغیرہ کی نذر مان لے تو وہ نفل اس کے ذمہ واجب ہوجاتی ہے اس کا پورا کرنا اس کے ذمہ لازم و واجب ہے۔ آیت مذکورہ سے یہی حکم ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں نذر کے ایفاء یعنی پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
مسئلہ
یہ یاد رہے کہ صرف دل میں کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرنے سے نذر نہیں ہوتی جب تک زبان سے الفاظ نذر ادا نہ کرے۔ تفسیر مظہری میں اس جگہ نذر اور منت کے احکام و مسائل بڑی تفصیل سے جمع کردیئے ہیں جو اپنی جگہ بہت اہم ہیں مگر یہاں ان کی گنجائش نہیں۔
ایک سوال اور جواب
اس آیت سے پہلے بھی اعمال حج قربانی اور احرام کھولنے وغیرہ کا ذکر ہوا ہے اور آگے بھی طواف زیارت کا بیان ہے درمیان میں ایفاء نذر کا ذکر کس مناسبت سے ہوا جبکہ ایفائے نذر ایک مستقل حکم ہے حج میں ہو یا حج کے بغیر اور حرم شریف میں ہو یا باہر کسی ملک میں۔
جواب یہ ہے کہ اگرچہ ایفاء نذر ایک مستقل حکم شرعی ہے ایام حج اور افعال حج یا حرم کے ساتھ مخصوص نہیں لیکن اس کا ذکر یہاں افعال حج کے ضمن میں شاید اس وجہ سے ہے کہ انسان جب حج کے لئے نکلتا ہے تو دل کا داعیہ ہوتا ہے کہ اس سفر میں زیادہ سے زیادہ نیک کام اور عبادات ادا کرے اس میں بہت سی چیزوں کی نذر بھی کرلیتا ہے خصوصاً جانوروں کی قربانی کی نذر کرنے کا تو عام رواج ہے۔ حضرت ابن عباس نے یہاں نذر سے مراد قربانی ہی کی نذر قرار دی ہے۔ اور ایک مناسبت نذر کی احکام حج سے یہ بھی ہے کہ جس طرح نذر اور قسم سے انسان پر بہت سی چیزیں جو اصل شرع کی رو سے واجب نہیں تھیں واجب ہوجاتی ہیں۔ اور بہت سی چیزیں جو اصل احکام کی رو سے حرام ناجائز نہیں تھیں وہ اس شخص پر ناجائز و حرام ہوجاتی ہیں۔ احرام کے تمام احکام تقریباً ایسے ہی ہیں کہ سلے ہوئے کپڑے، خوشبو کا استعمال بال مونڈنا، ناخن تراشنا وغیرہ فی نفسہ کوئی ناجائز کام نہ تھے مگر اس نے احرام باندھ کر یہ سب کام اپنے اوپر حرام کر لئے۔ اسی طرح حج کے دوسرے اعمال و افعال جو فرض تو عمر میں ایک ہی مرتبہ ہوتے ہیں مگر بعد میں حج وعمرہ کے لئے احرام باندھ کر یہ سب کام اس کے لئے فرض ہوجاتے ہیں۔ اسی لئے حضرت عکرمہ نے اس جگہ نذور کی تفسیر میں یہی فرمایا کہ اس سے مواجب حج مراد ہیں جو حج کی وجہ سے اس پر لازم ہوگئے ہیں۔
وَلْيَطَّوَّفُوْا بالْبَيْتِ الْعَتِيْقِ ، یہاں طواف سے مراد طواف زیارت ہے جو دسویں تاریخ ذی الحجہ کو رمی جمرہ اور قربانی کے بعد کیا جاتا ہے یہ طواف حج کا دوسرا رکن اور فرض ہے پہلا رکن وقوف عرفات ہے جو اس سے پہلے ادا ہوجاتا ہے۔ طواف زیارت پر احرام کے سب احکام مکمل ہو کر پورا احرام کھل جاتا ہے (روی ذلک عن ابن عباس و مجاہد و الضحاک و جماعة بل قال الطبری و ان لم یسلم لہ لا خلاف بین المتاولین فی انہ طواف الافاضہ و یکون ذلک یوم النحر از روح المعانی)
بیت عتیق، بیت اللہ کا نام بیت عتیق اس لئے ہے کہ عتیق کے معنے آزاد کے ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے اپنے گھر کا نام بیت عتیق اس لئے رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کفار و جبابرہ کے غلبہ اور قبضہ سے آزاد کردیا ہے (رواہ الترمذی و حسنہ و الحاکم و صححہ و ابن جریر و الطبرانی وغیرھم از روح المعانی) کسی کافر کی مجال نہیں کہ اس پر قبضہ یا غلبہ کرسکے۔ اصحاب فیل کا واقعہ اس پر شاہد ہے واللہ اعلم۔ تفسیر مظہری میں اس موقع پر طواف کے مفصل احکام و مسائل جمع کردیئے ہیں جو بہت اہم قابل دید ہیں۔ واللہ اعلم
Top