Maarif-ul-Quran - Al-Hajj : 3
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ
وَ : اور مِنَ النَّاسِ : کچھ لوگ جو مَنْ : جو يُّجَادِلُ : جھگڑا کرتے ہیں فِي اللّٰهِ : اللہ (کے بارے) میں بِغَيْرِ عِلْمٍ : بےجانے بوجھے وَّيَتَّبِعُ : اور پیروی کرتے ہیں كُلَّ شَيْطٰنٍ : ہر شیطان مَّرِيْدٍ : سرکش
اور بعضے لوگ وہ ہیں جو جھگڑتے ہیں اللہ کی بات میں بیخبر ی سے اور پیروی کرتا ہے ہر شیطان سرکش کی
خلاصہ تفسیر
اور بعضے آدمی ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی ذات یا صفات یا افعال کے متعلق) بےجانے بوجھے جھگڑا کرتے ہیں اور ہر شیطان سرکش کے پیچھے ہو لیتے ہیں (یعنی گمراہی کی ایسی قابلیت ہے کہ جو شیطان جس طرح بہکاوے اس کے بہکانے میں آجاتا ہے پس اس شخص میں انتہائی درجہ کی ضلالت ہوئی کہ اس پر ہر شیطان کی دسترس ہوجاتی ہے) جس کی نسبت (خدا کے یہاں سے) یہ بات لکھی جا چکی ہے (اور طے ہوچکی ہے) کہ جو شخص اس سے تعلق رکھے گا (یعنی اس کا اتباع کرے گا) تو اس کا کام ہی یہ ہے کہ وہ اس کو (راہ حق سے) بےراہ کر دے گا اور اس کو عذاب دوزخ کا راستہ دکھلا دے گا (آگے ان مجادلین کو خطاب ہے کہ) اے لوگو اگر تم (قیامت کے روز) دوبارہ زندہ ہونے (کے امکان) سے شک میں ہو تو (ذرا مضمون آئندہ میں غور کرلو تاکہ شک رفع ہوجاوے اور وہ یہ کہ) ہم نے (اول بار) تم کو مٹی سے بنایا (کیونکہ غذا جس سے نطفہ بنتا ہے اول عناصر سے پیدا ہوتی ہے جس میں ایک جزو مٹی بھی ہے) پھر نطفہ سے (جو کہ غذا سے پیدا ہوتا ہے) پھر خون کے لوتھڑے سے (کہ نطفہ میں غلظت اور سرخی آنے سے حاصل ہوتا ہے) پھر بوٹی سے (کہ علقہ میں سختی آجانے سے حاصل ہوتا ہے) کہ (بعضی) پوری ہوتی ہے (کہ اس میں پورے اعضاء بن جاتے ہیں) اور (بعضی) ادھوری بھی (ہوتی ہے کہ بعض اعضاء ناقص رہ جاتے ہیں یہ اس طرح کی ساخت اور ترتیب اور تفاوت سے اس لئے بنایا) تاکہ ہم تمہارے سامنے (اپنی قدرت) ظاہر کردیں (اور اسی سے ظاہر ہے کہ وہ دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے) اور (تتمہ اس مضمون کا یہ ہے جس سے اور زیادہ قدرت ظاہر ہوتی ہے کہ) ہم (ماں کے) رحم میں جس (نطفہ) کو چاہتے ہیں ایک مدت معین (یعنی وضع حمل کے وقت تک ٹھہرائے رکھتے ہیں (اور جس کو ٹھہرانا نہیں چاہتے ہیں وہاں اسقاط ہوجاتا ہے) پھر (اس مدت معینہ کے بعد) ہم تم کو بچہ بنا کر (ماں کے پیٹ سے) باہر لاتے ہیں پھر (اس کے بعد تین قسمیں ہوجاتی ہیں ایک قسم یہ کہ تم میں سے بعض کو جوانی تک مہلت دیتے ہیں) تاکہ تم اپنی بھری جوانی (کی عمر) تک پہنچ جاؤ اور بعضے تم میں وہ بھی ہیں جو (جوانی سے پہلے ہی) مر جاتے ہیں (یہ دوسری قسم ہوئی) اور بعضے تم میں وہ ہیں جو نکمی عمر (یعنی زیادہ بڑھاپے) تک پہنچا دیئے جاتے ہیں جس کا اثر یہ ہے کہ ایک چیز سے باخبر ہو کر پھر بیخبر ہوجاتے ہیں (جیسا اکثر بوڑھوں کو دیکھا کہ ابھی ایک بات بتلائی اور ابھی پھر پوچھ رہے ہیں۔ یہ تیسری قسم ہوئی یہ سب احوال بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت عظیمہ کی نشانیاں ہیں ایک استدلال تو یہ تھا) اور (آگے دوسرا استدلال ہے کہ) اے مخاطب تو زمین کو دیکھتا ہے کہ خشک (پڑی) ہے پھر جب ہم اس پر پانی برساتے ہیں تو وہ ابھرتی ہے اور پھولتی ہے اور ہر قسم (یعنی قسم قسم کی خوشنما نباتات اگاتی ہے (سو یہ بھی دلیل ہے قدرت کاملہ کے آگے استدلال کو اور واضح کرنے کے لئے تصرفات مذکورہ کی علت اور حکمت کا بیان فرماتے ہیں یعنی) یہ (جو کچھ اوپر دونوں استدلالوں کے ضمن میں اشیاء مذکورہ کا ایجاد و اظہار مذکور ہوا یہ سب) اس سبب سے ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی ہستی میں کامل ہے (یہ تو اس کا کمال ذاتی ہے) اور وہ ہی بےجانوں میں جان ڈالتا ہے (یہ اس کا کمال فعلی ہے) اور وہی ہر چیز پر قادر ہے (یہ اس کا کمال وصفی ہے اور یہ تینوں امور ملکر امور مذکورہ کی علت ہیں کیونکہ اگر کمالات ثلٰثہ میں سے ایک بھی غیر متحقق ہوتا تو ایجاد نہ پایا جاتا چناچہ ظاہر ہے) اور (نیز اس سبب سے ہوا کہ) قیامت آنے والی ہے اس میں ذرا شبہ نہیں اور اللہ تعالیٰ (قیامت میں) قبر والوں کو دوبارہ پیدا کرے گا (یہ امور مذکورہ کی حکمت ہیں یعنی ہم نے وہ تصرفات مذکورہ اس لئے ظاہر کئے کہ اس میں منجملہ اور حکمتوں کے ایک حکمت اور غایت یہ تھی کہ ہم کو قیامت کا لانا اور مردوں کو زندہ کرنا منظور تھا تو ان تصرفات سے ان کا امکان لوگوں پر ظاہر ہوجاوے گا پس ایجاد اشیاء مذکورہ کی تین علتیں اور دو حکمتیں مذکور ہوئیں اور سبب بالمعنی الاعم سب کو عام ہوا اس لئے بان اللہ کی باء سبییة سب پر داخل ہوگئی) اور (یہاں تک تو مجادلین کی گمراہی اور اس کے رد میں استدلال مذکور تھا آگے ان کا اضلال۔ یعنی دوسروں کو گمراہ کرنا۔ اور دونوں ضلال واضلال کا وبال عظیم مذکور ہوتا ہے) بعضے آدمی ایسے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں (یعنی اس کی ذات یا صفات یا افعال کے مقدمہ میں) بدون واقفیت (یعنی علم ضروری) اور بدون دلیل (یعنی علم استدلالی عقلی) اور بدون کسی روشن کتاب (یعنی علم استدلالی نقلی) کے (اور دوسرے محقق کے اتباع و تقلید سے) تکبر کرتے ہوئے جھگڑا کرتے ہیں تاکہ (دوسرے لوگوں کو بھی) اللہ کی راہ سے (یعنی دین حق سے) بےراہ کردیں ایسے شخص کے لئے دنیا میں رسوائی ہے (خواہ کسی قسم کی رسوائی ہو چناچہ بعضے گمراہ قتل و قید وغیرہ سے ذلیل ہوتے ہیں بعضے مناظرہ اہل حق میں مغلوب ہو کر عقلاء کی نظر میں بےعزت ہوتے ہیں) اور قیامت کے دن ہم اس کو جلتی آگ کا عذاب چکھا دیں گے (اور اس سے کہا جاوے گا) کہ یہ تیرے ہاتھ کے کئے ہوئے کاموں کا بدلہ ہے اور یہ بات ثابت ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ (اپنے) بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں (پس تجھ کو بلا جرم سزا نہیں دی گئی)۔

معارف و مسائل
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُّجَادِلُ فِي اللّٰهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ ، یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں نازل ہوئی جو بڑا جھگڑالو تھا، فرشتوں کو خدا تعالیٰ کی بیٹیاں اور قرآن کو پچھلے لوگوں کے افسانے کہا کرتا تھا اور قیامت اور دوبارہ زندہ ہونے کا منکر تھا (کذارواہ ابن ابی حاتم عن ابی مالک۔ مظہری)
نزول آیت کا اگرچہ ایک خاص شخص کے بارے میں ہوا مگر حکم اس کا سب کے لئے عام ہے جس میں اس طرح کی بری خصلتیں پائی جائیں۔
Top