Maarif-ul-Quran - Al-Muminoon : 51
یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا١ؕ اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الرُّسُلُ : رسول (جمع) كُلُوْا : کھاؤ مِنَ : سے الطَّيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں وَاعْمَلُوْا : اور عمل کرو صَالِحًا : نیک اِنِّىْ : بیشک میں بِمَا : اسے جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے رسولو ! کھاؤ ستھری چیزیں اور کام کرو بھلا جو تم کرتے ہو میں جانتا ہوں
خلاصہ تفسیر
ہم نے جس طرح تم کو اپنی نعمتوں کے استعمال کی اجازت دی اور عبادت کا حکم دیا اسی طرح سب پیغمبروں کو اور ان کے واسطے سے ان کی امتوں کو بھی حکم دیا کہ) اے پیغمبرو ! تم (اور تمہاری امتیں) نفیس چیزیں کھاؤ (کہ خدا کی نعمت ہیں) اور (کھا کر شکر ادا کرو کہ) نیک کام کرو (یعنی عبادت اور) میں تم سب کے کئے ہوئے کاموں کو خوب جانتا ہوں (تو عبادت اور نیک کاموں پر ان کی جزا اور ثمرات عطا کروں گا) اور (ہم نے ان سے یہ بھی کہا کہ جو طریقہ تمہیں ابھی بتایا گیا ہے) یہ ہے تمہارا طریقہ (جس پر تم کو چلنا اور رہنا واجب ہے) کہ وہ ایک ہی طریقہ ہے (سب انبیاء اور ان کی امتوں کا کسی شریعت میں یہ طریقہ نہیں بدلا) اور (حاصل اس طریقہ کا یہ ہے کہ) میں تمہارا رب ہوں تم مجھ سے ڈرتے رہو (یعنی میرے احکام کی مخالفت نہ کرو کیونکہ رب ہونے کی حیثیت سے تمہارا خالق ومالک بھی ہوں اور منعم ہونے کی حیثیت سے تم کو بیشمار نعمتیں بھی دیتا ہوں، ان سب چیزوں کا تقاضا اطاعت و فرمانبرداری ہے) سو (اس کا نتیجہ تو یہ ہونا تھا کہ سب ایک ہی طریقہ مذکورہ پر رہتے مگر ایسا نہ کیا بلکہ) ان لوگوں نے اپنے دین اپنا طریق الگ الگ کر کے اختلاف پیدا کرلیا ہر گروہ کے پاس جو دین (یعنی اپنا بنایا ہوا طریقہ) ہے وہ اسی پر مگن اور خوش ہے (اس کے باطل ہونے کے باوجود اسی کو حق سمجھتا ہے) تو آپ ان کو ان کی جہالت میں ایک خاص وقت تک رہنے دیجئے (یعنی ان کی جہالت پر آپ غم نہ کیجئے جب مقرر وقت ان کی موت کا آ جاوے گا تو سب حقیقت کھل جاوے گی اور اب جو فوری طور پر ان پر عذاب نہیں آتا تو) کیا (اس سے) یہ لوگ یوں گمان کر رہے ہیں کہ ہم ان کو جو کچھ مال و اولاد دیتے ہیں تو ہم ان کو جلدی جلدی فائدے پہنچا رہے ہیں (یہ بات ہرگز نہیں) بلکہ یہ لوگ (اس ڈھیل دینے کی وجہ) نہیں جانتے (یعنی یہ ڈھیل تو ان کو بطور استدراج کے دی جا رہی ہے جو انجام کار ان کے لئے اور زیادہ عذاب کا سبب بنے گی کیونکہ ہماری مہلت اور ڈھیل دینے سے یہ اور مغرور ہو کر سرکشی اور گناہوں میں زیادتی کریں گے اور عذاب زیادہ ہوگا)۔

معارف و مسائل
يٰٓاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا، لفظ طیبات کے لغوی معنی ہیں پاکیزہ نفیس چیزیں۔ اور چونکہ شریعت اسلام میں جو چیزیں حرام کردی گئی ہیں نہ وہ پاکیزہ ہیں نہ اہل عقل کے لئے نفیس و مرغوب۔ اس لئے طیبات سے مراد صرف حلال چیزیں ہیں جو ظاہری اور باطنی ہر اعتبار سے پاکیزہ و نفیس ہیں۔ اس آیت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کو اپنے اپنے وقت میں دو ہدایات دی گئی ہیں ایک یہ کہ کھانا حلال اور پاکیزہ کھاؤ، دوسرے یہ کہ عمل نیک صالح کرو۔ اور جب انبیاء (علیہم السلام) کو یہ خطاب کیا گیا ہے جن کو اللہ نے معصوم بنایا ہے تو ان کی امت کے لوگوں کے لئے یہ حکم زیادہ قابل اہتمام ہے اور اصل مقصود بھی امتوں ہی کو اس حکم پر چلانا ہے۔
علماء نے فرمایا کہ ان دونوں حکموں کو ایک ساتھ لانے میں اس طرف اشارہ ہے کہ حلال غذا کا عمل صالح میں بڑا دخل ہے جب غذا حلال ہوتی ہے تو نیک اعمال کی توفیق خود بخود ہونے لگتی ہے اور غذا حرام ہو تو نیک کام کا ارادہ کرنے کے باوجود بھی اس میں مشکلات حائل ہوجاتی ہیں۔ حدیث میں ہے کہ بعض لوگ لمبے لمبے سفر کرتے ہیں اور غبار آلود رہتے ہیں پھر اللہ کے سامنے دعا کے لئے ہاتھ پھیلاتے ہیں اور یا رب یا رب پکارتے ہیں مگر ان کا کھانا بھی حرام ہوتا ہے پینا بھی، لباس بھی حرام ہی تیار ہوتا ہے اور حرام ہی کی ان کو غذا ملتی ہے ایسے لوگوں کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے۔ (قرطبی)
اس سے معلوم ہوا کہ عبادت اور دعا کے قبول ہونے میں حلال کھانے کو بڑا دخل ہے جب غذا حلال نہ ہو تو عبادت اور دعا کی مقبولیت کا بھی استحقاق نہیں رہتا۔
Top