Maarif-ul-Quran - Al-Furqaan : 2
اِ۟لَّذِیْ لَهٗ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ شَرِیْكٌ فِی الْمُلْكِ وَ خَلَقَ كُلَّ شَیْءٍ فَقَدَّرَهٗ تَقْدِیْرًا
الَّذِيْ لَهٗ : وہ جس کے لیے مُلْكُ : بادشاہت السَّمٰوٰتِ : آسمانوں وَالْاَرْضِ : اور زمین وَلَمْ يَتَّخِذْ : اور اس نے نہیں بنایا وَلَدًا : کوئی بیٹا وَّلَمْ يَكُنْ : اور نہیں ہے لَّهُ : اس کا شَرِيْكٌ : کوئی شریک فِي الْمُلْكِ : سلطنت میں وَخَلَقَ : اور اس نے پیدا کیا كُلَّ شَيْءٍ : ہر شے فَقَدَّرَهٗ : پھر اس کا اندازہ ٹھہرایا تَقْدِيْرًا : ایک اندازہ
وہ کہ جس کی ہے سلطنت آسمان اور زمین میں اور نہیں پکڑا اس نے بیٹا اور نہیں کوئی اس کا ساجھی سلطنت میں اور بتائی ہر چیز پھر ٹھیک کیا اس کو ماپ کر
فَقَدَّرَهٗ تَقْدِيْرًا، تخلیق کے بعد تقدیر کا ذکر فرمایا گیا۔ تخلیق کے معنی تو اتنے ہیں کہ بغیر کسی سابق مادہ وغیرہ کے ایک چیز کو عدم سے وجود میں لایا جائے وہ کیسی بھی ہو۔
مخلوقات میں سے ہر ایک چیز میں خاص خاص حکمتیں
اور تقدیر کا مفہوم یہ ہے کہ جس چیز کو بھی پیدا فرمایا اس کے اجزاء کی ساخت اور شکل و صورت اور آثار و خواص بڑی حکمت کے ساتھ اس کام کے مناسب پیدا کئے جس کام کے لئے اس چیز کو پیدا کیا گیا ہے۔ آسمان کی ساخت اس کے اجزاء ترکیبی اس کی ہیئت اس کام کے مناسب ہے، جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمان بنایا ہے۔ سیاروں اور ستاروں کی تخلیق میں وہ چیزیں رکھی گئیں جو ان کے منشاء وجود کے مناسب ہیں۔ زمین اور اس کے پیٹ میں پیدا ہونے والی ہر چیز جس پر نظر ڈالو ہر ایک کی ساخت، شکل و صورت، نرمی، سختی اس کام کے مناسب بنائی گئی ہے۔ جس کام کے لئے قدرت نے اس کو پیدا کیا ہے۔ زمین کو نہ اتنا رقیق مادہ پانی کی طرح بنایا کہ جو کچھ اس پر رکھا جائے وہ اس کے اندر ڈوب جائے، نہ اتنا سخت پتھر اور لوہے کی طرح بنایا کہ اس کو کھود نہ سکیں کیونکہ اس سے یہی ضرورتیں متعلق تھیں کہ اس کو کھود کر پانی بھی نکالا جاسکے۔ اس میں بنیادیں کھود کر بڑی اونچی عمارتیں اس پر کھڑی کی جاسکیں۔ پانی کو سیال بنایا جس میں ہزاروں حکمتیں ہیں۔ ہوا بھی سیال ہی ہے مگر پانی سے مختلف، پانی ہر جگہ خود بخود نہیں پہنچتا اس میں انسان کو کچھ محنت بھی کرنا پڑتی ہے۔ ہوا کو قدرت نے اپنا جبری انعام بنایا کہ وہ بغیر کسی محنت و عمل کے ہر جگہ پہنچ جاتی ہے بلکہ کوئی شخص ہوا سے بچنا چاہے تو اس کو اس کے لئے بڑی محنت کرنا پڑتی ہے۔ یہ جگہ مخلوقات الہیہ کی حکمتوں کی تفصیل بیان کرنے کی نہیں۔ ایک ایک مخلوق کو دیکھو ان میں سے ہر ایک قدرت و حکمت کا شاہکار ہے۔ امام غزالی نے اپنی ایک مستقل کتاب اس موضوع پر لکھی ہے بنام الحکمتہ فی مخلوقات اللہ تعالیٰ۔
ان آیات میں شروع ہی سے قرآن کی عظمت اور جس ذات گرامی پر وہ نازل ہوا ہے اس کو عبدہ کا خطاب دے کر اس کی عزت و عظمت کا عجیب و غریب بیان ہے۔ کیونکہ کسی مخلوق کے لئے اس سے بڑا کوئی شرف نہیں ہوسکتا کہ خالق اس کو یہ کہہ دے کہ یہ میرا ہے۔
بندہ حسن بصد زبان گفت کہ بندہ توام تو بزبان خود بگو بندہ نواز کیستی
Top