Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 128
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِیْعٍ اٰیَةً تَعْبَثُوْنَ
اَتَبْنُوْنَ : کیا تم تعمیر کرتے ہو بِكُلِّ رِيْعٍ : ہر بلندی پر اٰيَةً : ایک نشانی تَعْبَثُوْنَ : کھیلنے کو (بلا ضرورت)
کیا بناتے ہو ہر اونچی زمین پر ایک نشان جھیلنے کو
معارف و مسائل
چند مشکل الفاظ کی تشریح
اَتَبْنُوْنَ بِكُلِّ رِيْعٍ اٰيَةً تَعْبَثُوْنَ ، وَتَتَّخِذُوْنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ ، (الریع) ابن جریر نے حضرت مجاہد سے نقل فرمایا ہے کہ ریع دو پہاڑوں کے درمیانی راستہ کو کہتے ہیں۔ حضرت ابن عباس سے اور جمہور سے منقول ہے کہ ریع بلند جگہ کو کہتے ہیں اور اسی سے ریع النبات نکلا ہے یعنی بڑھنے اور چڑھنے والی نباتات (ایة) اس کے اصل معنی علامت کے ہیں اس جگہ بلند محل مراد ہے (تَعْبَثُوْنَ) یہ عبث سے ہے اور عبث اس کو کہتے ہیں جس میں نہ حقیقة کوئی فائدہ ہو اور نہ حکماً اس جگہ معنی یہ ہوں گے کہ وہ بےفائدہ بلند بلند محلات بناتے تھے جن کی ان کو کوئی ضرورت نہیں تھی صرف فخریہ بناتے تھے (مَصَانِعَ) مصنع کی جمع ہے۔ حضرت قتادہ نے فرمایا کہ مصانع سے پانی کے حوض مراد ہیں لیکن حضرت مجاہد نے فرمایا کہ اس سے مضبوط محل مراد ہیں۔ (لَعَلَّكُمْ تَخْلُدُوْنَ) امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری میں بیان فرمایا کہ اس آیت میں لَعَلَّ تشبیہ کے لئے ہے اور حضرت ابن عباس نے ترجمہ یہ فرمایا کَاَنَّکُم تَخْلُدُوْنَ یعنی گویا تم ہمیشہ رہو گے (کما فی الروح)
بلاضرورت عمارت بنانا مذموم ہے
اس آیت سے ثابت ہوا کہ بغیر ضرورت کے مکان بنانا اور تعمیرات کرنا شرعاً برا ہے اور یہی معنی ہیں اس حدیث کے جو امام ترمذی نے حضرت انس سے روایت کی ہے کہ النفقة کلھا فی سبیل اللہ الا البناء فلا خیر فیہ، یعنی وہ عمارت جو ضرورت سے زائد بنائی گئی ہو اس میں کوئی بہتری اور بھلائی نہیں اور اس معنی کی تصدیق حضرت انس کی دوسری روایت سے بھی ہوتی ہے کہ ان کل بناء وبال علی صاحبہ الا مالا، الا مالا یعنی الا مالا بدمنہ (ابو داؤد) یعنی ہر تعمیر صاحب تعمیر کے لئے مصیبت ہے مگر وہ عمارت جو ضروری ہو وہ وبال نہیں ہے روح المعانی میں فرمایا کہ بغیر غرض صحیح کے بلند عمارت بنانا شریعت محمدیہ میں بھی مذموم اور برا ہے۔
Top