Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 193
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُۙ
نَزَلَ بِهِ : اس کے ساتھ (لے کر) اترا الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ : جبریل امین
لے کر اترا ہے اس کو فرشتہ معتبر
معارف و مسائل
نَزَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ ، عَلٰي قَلْبِكَ لِتَكُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ ، بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ ، وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ۔
قرآن اس کے الفاظ و معانی کے مجموعہ کا نام ہے
آیات مذکورہ میں بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن وہی ہے جو عربی زبان میں ہو، کسی مضمون قرآن کا ترجمہ خواہ کسی زبان میں ہو وہ قرآن نہیں کہلائے گا اور وَاِنَّهٗ لَفِيْ زُبُرِ الْاَوَّلِيْنَ کے الفاظ سے بظاہر اس کے خلاف یہ معلوم ہوتا ہے کہ معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں بھی ہوں وہ بھی قرآن ہیں، کیونکہ انہ کی ضمیر ظاہر یہ ہے کہ قرآن کی طرف راجع ہے اور زبر، زبور کی جمع ہے جس کے معنے ہیں کتاب۔ معنے آیت کے یہ ہوئے کہ قرآن کریم سابقہ کتابوں میں بھی ہے اور یہ ظاہر ہے پچھلی کتابیں تورات انجیل زبور وغیرہ عربی زبان میں نہیں تھیں تو صرف معانی قرآن کے ان میں مذکور ہونے کو اس آیت میں کہا گیا ہے کہ قرآن پچھلی کتابوں میں بھی ہے اور حقیقت جس پر جمہور امت کا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ صرف مضامین قرآن کو بھی بعض اوقات تو سعاً قرآن کہہ دیا جاتا ہے کیونکہ اصل مقصود کسی کتاب کا اس کے مضامین ہی ہوتے ہیں۔ کتب اولین میں قرآن کا مذکور ہونا بھی اسی حیثیت سے ہے کہ بعض مضامین قرآنیہ ان میں بھی مذکور ہیں اس کی تائید بہت سی روایات حدیث سے بھی ہوتی ہے۔
مستدرک حاکم میں حضرت معقل بن یسار کی حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے سورة بقرہ ذکر اول سے دی گئی ہے اور سورة طہ اور طواسین یعنی جتنی سورتیں طس سے شروع ہوتی ہیں اور حوامیم یعنی جو سورتیں حم سے شروع ہیں یہ سب سورتیں الواح موسیٰ میں سے دی گئی ہیں اور سورة فاتحہ مجھے تحت عرش سے دی گئی ہے۔ اور طبرانی، حاکم، بیہقی وغیرہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ سورة ملک تورات میں موجود ہے۔ الحدیث، اور سورة سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْاَعْلَى میں تو خود قرآن کی تصریح یہ ہے اِنَّ هٰذَا لَفِي الصُّحُفِ الْاُوْلٰى، صُحُفِ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى یعنی یہ مضامین سورت حضرت ابراہیم اور موسیٰ (علیہما السلام) کے صحیفوں میں بھی ہیں لیکن تمام آیات و روایات کا حاصل یہی ہے کہ بہت سے مضامین قرآن کتب سابقہ میں بھی موجود تھے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان مضامین کی وجہ سے کتب سابقہ کے حصوں کو جن میں یہ مضامین قرآن آئے ہیں قرآن کا نام دے دیا جائے۔ نہ امت میں کوئی اس کا قائل ہے کہ ان صحیفوں اور کتابوں کو جن میں مضامین قرآن مذکور ہیں قرآن کہا جائے۔ بلکہ عقیدہ جمہور امت کا یہی ہے کہ قرآن نہ صرف الفاظ قرآن کا نام ہے نہ صرف معانی قرآن کا۔ اگر کوئی شخص قرآن ہی کے الفاظ مختلف جگہوں سے چن کر ایک عبارت بنا دے مثلاً کوئی یہ عبارت بنالے الحمد للہ العزیز الرحیم۔ الذی لہ ملک السموت و ھو رب العلمین خالق کل شئی وھو المستعان یہ سارے الفاظ قرآن ہی کے ہیں مگر اس عبارت کو کوئی قرآن نہیں کہہ سکتا۔ اسی طرح صرف معانی قرآن جو کسی دوسری زبان میں بیان کئے جائیں وہ بھی قرآن نہیں۔
نماز میں ترجمہ قرآن پڑھنا باجماع امت ناجائز ہے
اسی وجہ سے امت کا اس پر اتفاق ہے کہ نماز میں فرض تلاوت کی جگہ قرآن کے الفاظ کا ترجمہ کسی زبان فارسی، اردو، انگریزی میں پڑھ لینا بدون اضطرار کے کافی نہیں۔ بعض ائمہ سے جو اس میں توسع کا قول منقول ہے ان سے بھی اپنے اس قول سے رجوع ثابت ہے۔
قرآن کے اردو ترجمہ کو اردو قرآن کہنا جائز نہیں
اسی طرح قرآن کا صرف ترجمہ کسی زبان میں بغیر عربی متن کے لکھا جائے تو اس کو اس زبان کا قرآن کہنا جائز نہیں۔ جیسے آج کل بہت سے لوگ صرف اردو ترجمہ قرآن کو اردو کا قرآن اور انگریزی کو انگریزی کا قرآن کہہ دیتے ہیں یہ ناجائز اور بےادبی ہے قرآن کو بغیر متن عربی کے کسی دوسری زبان میں بنام قرآن شائع کرنا اور اس کی خریدو فروخت سب ناجائز ہے اس مسئلہ کی پوری تفصیل احقر کے رسالہ " تحذیر الاخوان عن تغییر رسم القرآن " میں مذکور ہے۔
Top