Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 224
وَ الشُّعَرَآءُ یَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَؕ
وَالشُّعَرَآءُ : اور شاعر (جمع يَتَّبِعُهُمُ : ان کی پیروی کرتے ہیں الْغَاوٗنَ : گمراہ لوگ
اور شاعروں کی بات پر چلیں وہی جو بےراہ ہیں
شعر کی تعریف
وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ، اصل لغت میں شعر ہر اس کلام کو کہا جاتا ہے جس میں محض خیالی اور غیر تحقیقی مضامین بیان کئے گئے ہوں جس میں کوئی بحر، وزن، ردیف اور قافیہ کچھ شرط نہیں، فن منطق میں بھی ایسے ہی مضامین کو ادلہ شعریہ اور قضایا شعریہ کہا جاتا ہے۔ اصطلاحی شعر و غزل میں بھی چونکہ عموماً خیالات کا ہی غلبہ ہوتا ہے اس لئے اصطلاح شعراء میں کلام موزوں مقفّٰی کو شعر کہنے لگے۔ بعض مفسرین نے آیات قرآن بَلْ هُوَ شَاعِرٌ، شَاعِرٍ مَّجْــنُوْنٍ ، شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهٖ وغیرہ میں شعر اصطلاحی کے معنی میں مراد لے کر کہا کہ کفار مکہ حضور ﷺ کو وزن دار، قافیہ دار کلام لانے والے کہتے تھے لیکن بعض نے کہا کہ کفار کا مقصد یہ نہ تھا، اس لئے کہ وہ شعر کے طرز و طریق سے واقف تھے اور ظاہر ہے کہ قرآن اشعار کا مجموعہ نہیں اس کا قائل تو ایک عجمی بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ فصیح وبلیغ عرب، بلکہ کفار آپ کو شاعر شعر کے اصلی معنے یعنی خیالی مضامین کے لحاظ سے کہتے تھے۔ مقصد ان کا دراصل آپ کو نعوذ باللہ جھوٹا کہنا تھا کیونکہ شعر بمعنی کذب بھی استعمال ہوتا ہے اور شاعر کاذب کو کہا جاتا ہے۔ اس لئے ادلہ کا ذبہ کو ادلہ شعریہ کہا جاتا ہے خلاصہ یہ کہ جیسے موزوں اور مقفّٰی کلام کو شعر کہتے ہیں اسی طرح ظنی اور تخمینی کلام کو بھی شعر کہتے ہیں جو اہل منطق کی اصطلاح ہے۔
وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ، اس آیت میں شعر کے اصطلاحی اور معروف معنے ہی مراد ہیں۔ یعنی موزوں و مقفّٰی کلام کہنے والے، اس کی تائید فتح الباری کی روایت سے ہوتی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عبداللہ بن رواحة، حسان بن ثابت اور کعب بن مالک جو شعراء صحابہ میں مشہور ہیں روتے ہوئے سرکار دو عالم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ خدائے ذوالجلال نے یہ آیت نازل فرمائی ہے اور ہم بھی شعر کہتے ہیں،حضور ﷺ نے فرمایا کہ آیت کے آخری حصہ کو پڑھو۔ مقصد یہ تھا کہ تمہارے اشعار بیہودہ اور غلط مقصد کے لئے نہیں ہوتے اس لئے تم اس استثناء میں داخل ہو جو آخر آیت میں مذکور ہے اس لئے مفسرین نے فرمایا کہ ابتدائی آیت میں مشرکین شعراء مراد ہیں کیونکہ گمراہ لوگ سرکش شیطان اور نافرمان جن ان ہی کے اشعار کی اتباع کرتے تھے اور روایت کرتے تھے (کما فی فتح الباری)
شریعت اسلام میں شعر و شاعری کا درجہ
آیات مذکورہ کے شروع سے شعر و شاعری کی سخت مذمت اور اس کا عنداللہ مبغوض ہونا معلوم ہوتا ہے مگر آخر سورت میں جو استثناء مذکور ہے اس سے ثابت ہوا کہ شعر مطلقاً برا نہیں بلکہ جب جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی یا اللہ کے ذکر سے روکنا یا جھوٹ ناحق کسی انسان کی مذمت اور توہین ہو یا فحش کلام اور فواحش کے لئے محرک ہو وہ مذموم و مکروہ ہے اور جو اشعار ان معاصی اور مکروہات سے پاک ہوں ان کو اللہ تعالیٰ نے اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ الآیتہ کے ذریعہ مستثنی فرما دیا ہے اور بعض اشعار تو حکیمانہ مضامین اور وعظ و نصیحت پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اطاعت وثواب میں داخل ہیں جیسا کہ حضرت ابی بن کعب کی روایت ہے کہ ان من الشعر حکمۃ، یعنی بعض شعر حکمت ہوتے ہیں (رواہ البخاری) حافظ ابن حجر نے فرمایا کہ حکمت سے مراد سچی بات ہے جو حق کے مطابق ہو۔ ابن بطال نے فرمایا جس شعر میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اس کا ذکر، اسلام سے الفت کا بیان ہو وہ شعر مرغوب و محمود ہے اور حدیث مذکور میں ایسا ہی شعر مراد ہے اور جس شعر میں جھوٹ اور فحش بیان ہو وہ مذموم ہے اس کی مزید تائید مندرجہ ذیل روایات سے ہوتی ہے (1) عمر بن الشرید اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہحضور ﷺ نے مجھ سے امیہ بن ابی الصلت کے سو قافیہ تک اشعار سنے (2) مطرف فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ سے بصرہ تک حضرت عمران بن حصین کے ساتھ سفر کیا اور ہر منزل پر وہ شعر سناتے تھے (3) طبری نے کبار صحابہ اور کبار تابعین کے متعلق کہا کہ وہ شعر کہتے تھے سنتے تھے اور سناتے تھے (4) امام بخاری فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ شعر کہا کرتی تھیں (5) ابو یعلی نے ابن عمر سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ شعر ایک کلام ہے اگر اس کا مضمون اچھا اور مفید ہے تو شعر اچھا ہے اور مضمون برا یا گناہ کا ہے تو شعر برا ہے۔ (فتح الباری)
تفسیر قرطبی میں ہے کہ مدینہ منورہ کے فقہاء عشرہ جو اپنے علم و فضل میں معروف ہیں ان میں سے عبید اللہ بن عتبہ بن مسعود، مشہور قادر کلام شاعر تھے اور قاضی زبیر بن بکار کے اشعار ایک مستقل کتاب میں جمع تھے۔ پھر قرطبی نے لکھا کہ ابو عمرو نے فرمایا ہے کہ اچھے مضامین پر مشتمل اشعار کو اہل علم اور اہل عقل میں سے کوئی برا نہیں کہہ سکتا، کیونکہ اکابر صحابہ جو دین کے مقتدا ہیں ان میں کوئی بھی ایسا نہیں جس نے خود شعر نہ کہے ہوں یا دوسروں کے اشعار نہ پڑھے یا سنے ہوں اور پسند کیا ہو۔
جن روایات میں شعر شاعری کی مذمت مذکور ہے ان سے مقصود یہ ہے کہ شعر میں اتنا مصروف اور منہمک ہوجائے کہ ذکر اللہ عبادت اور قرآن سے غافل ہوجائے۔ امام بخاری نے اس کو ایک مستقل باب میں بیان فرمایا ہے اور اس باب میں حضرت ابوہریرہ کی یہ روایت نقل کی ہے۔ لان یمتلئ جوف رجل قیحاً یریہ خیر من ان یمتلئ شعراً ، یعنی کوئی آدمی پیپ سے اپنا پیٹ بھرے یہ اس سے بہتر ہے کہ اشعار سے پیٹ بھرے۔ امام بخاری فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کے معنی یہ ہیں کہ شعر جب ذکر اللہ اور قرآن اور علم کے اشتغال پر غالب آجائے اور اگر شعر مغلوب ہے تو پھر برا نہیں ہے اسی طرح وہ اشعار جو فحش مضامین یا لوگوں پر طعن وتشنیع یا دوسرے خلاف شرع مضامین پر مشتمل ہوں وہ باجماع امت حرام و ناجائز ہیں اور یہ کچھ شعر کے ساتھ مخصوص نہیں جو نثر کلام ایسا ہو اس کا بھی یہی حکم ہے۔ (قرطبی)
حضرت عمر بن خطاب نے اپنے گورنر عدی بن نضلہ کو ان کے عہدہ سے اس لئے برخاست کردیا کہ وہ فحش اشعار کہتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عمرو بن ربیعہ اور ابوالاحوص کو اسی جرم میں جلا وطن کرنے کا حکم دیا۔ عمرو بن ربیعہ نے توبہ کرلی وہ قبول کی گئی۔ (قرطبی)
خدا و آخرت سے غافل کردینے والا ہر علم اور فن مذموم ہے
ابن ابی جمرہ نے فرمایا کہ بہت قافیہ بازی اور ہر ایسا علم و فن جو دلوں کو سخت کر دے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے انحراف و اعراض کا سبب بنے اور اعتقادات میں شکوک و شبہات اور روحانی بیماریاں پیدا کرے اس کا بھی وہی حکم ہے جو مذموم اشعار کا حکم ہے۔
اکثر اتباع کرنے والوں کی گمراہی متبوع کی گمراہی کی علامت ہوتی ہے
وَالشُّعَرَاۗءُ يَتَّبِعُهُمُ الْغَاوٗنَ ، اس آیت میں شعراء پر یہ عیب لگایا گیا ہے کہ ان کے متعبین گمراہ ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گمراہ تو ہوئے متبعین ان کے فعل کا الزام متبوعین یعنی شعراء پر کیسے عائد ہوا ؟ وجہ یہ ہے کہ عموماً اتباع کرنے والوں کی گمراہی علامت اور نشانی ہوتی ہے متبوع کی گمراہی کی لیکن سیدی حضرت حکیم الامت تھانوی ؒ نے فرمایا کہ یہ حکم اس وقت ہے جب تابع کی گمراہی میں اس متبوع کے اتباع کا دخل ہو مثلاً متبوع کو جھوٹ اور غیبت سے بچنے بچانے کا اہتمام نہیں ہے اس کی مجلس میں اس طرح کی باتیں ہوتی ہیں وہ روک ٹوک نہیں کرتا اس سے تابع کو بھی جھوٹ اور غیبت کی عادت پڑگئی تو یہ تابع کا گناہ خود متبوع کے گناہ کی علامت قرار دیا جائے گا لیکن اگر گمراہی متبوع کی ایک وجہ سے اور اتباع کسی دوسری وجہ سے ہو تو یہ تابع کی گمراہی متبوع کی گمراہی کی علامت نہیں ہوگی۔ مثلاً ایک شخص عقائد و مسائل میں کسی عالم کا اتباع کرتا ہے اور ان میں کوئی گمراہی نہیں، اعمال و اخلاق میں اس عالم کا اتباع نہیں کرتا انہیں میں یہ گمراہ ہے تو اس کی عملی اور اخلاقی گمراہی اس عالم کی گمراہی پر دلیل نہیں ہوگی۔ واللہ سبحانہ، وتعالی اعلم
تمت سورة الشعراء بعون اللہ وفضلہ لنصف الربیع الثانی 1391 ھ یوم الخمیس ویتلوھا انشاء اللہ تعالیٰ سورة النمل
Top