Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 84
وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ
وَاجْعَلْ : اور کر لِّيْ لِسَانَ : میرے لیے۔ میرا ذکر صِدْقٍ : اچھا۔ خیر فِي الْاٰخِرِيْنَ : بعد میں آنے والوں میں
اور رکھ میرا بول سچا پچھلوں میں
معارف و مسائل
قیامت تک انسانوں میں ذکر خیر رکھنے کی دعا
وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ اس آیتہ مبارکہ میں " لسان " سے مراد ذکر ہے اور " لی " کا لام نفع کے لئے ہے آیتہ کے معنی یہ ہوئے کہ اے خدایا مجھے ایسے پسندیدہ طریقے اور عمدہ نشانیاں عطا فرما جس کی دوسرے لوگ قیامت تک پیروی کریں، اور مجھے ذکر خیر اور عمدہ صفت سے یاد کیا کریں (ابن کثیر و روح المعانی) اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی دعا قبول فرمائی۔ یہود و نصاری اور مشرکین مکہ تک ملتہ ابراہیمی سے محبت و الفت رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کی طرف منسوب کرتے ہیں، اگرچہ ان کا طریقہ ملت ابراہیمی کے خلاف کفر و شرک ہے مگر وہ دعویٰ یہی کرتے ہیں کہ ہم ملت ابراہیمی پر ہیں اور امت محمدیہ تو بجا طور پر بھی ملت ابراہیم پر ہونے کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتی ہے۔
حب جاہ مذموم مگر چند شرائط کے ساتھ جائز ہے
حب جاہ یعنی لوگوں سے اپنی عزت کرنے اور محدح کرنے کی خواہش شرعاً مذموم ہے قرآن کریم نے دار آخرت کی نعمتوں کو حب جاہ کے ترک پر موقوف قرار دیا ہے (قال تعالیٰ تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا) اس جگہ آیت (وَاجْعَلْ لِّيْ لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْاٰخِرِيْنَ) میں حضرت ابراہیم ؑ کی یہ دعا کہ آنے والی نسلوں میں میری تعریف و ثنا ہوا کرے بظاہر حب جاہ میں داخل معلوم ہوتی ہے لیکن آیت کے الفاظ میں غور کیا جائے تو معلوم ہوجائے گا کہ اس دعا کا اصل مقصد حب جاہ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ سے اس کی دعا ہے کہ ایسے نیک اعمال کی توفیق بخشیں جو میری آخرت کا سامان بنیں اور اس کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی اعمال صالحہ کی رغبت ہو اور میرے بعد بھی لوگ اعمال صالحہ میں میری پیروی کرتے رہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس سے کوئی وجاہت کا فائدہ حاصل کرنا مقصود ہی نہیں، جس کو حب جاہ کہا جاسکے۔ قرآن و حدیث میں جہاں طلب جاہ کو ممنوع اور مذموم قرار دیا ہے اس کی مراد ہی دنیوی وجاہت اور اس سے دنیوی منافع حاصل کرنا ہے۔
امام ترمذی و نسائی نے حضرت کعب بن مالک کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں کے گلے میں چھوڑ دیئے جاویں وہ بکریوں کے ریوڑ کو اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا دو خصلتیں انسان کے دین کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ ایک مال کی محبت دوسرے اپنی عزت و جاہ کی طلب (رواہ الطبرانی عن ابی سعید الخدری والبزار عن ابی ہریرہ) اور حضرت ابن عباس سے بسند ضعیف دیلمی نے یہ روایت نقل کی ہے کہ جاہ وثناء کی محبت انسان کو اندھا بہرا کردیتی ہے۔ ان تمام روایات سے مراد وہ حب جاہ اور طلب ثناء ہے جو دنیوی مقاصد کے لئے مطلوب ہو یا جس کی خاطر دین میں مداہنت یا کسی گناہ کا ارتکاب کرنا پڑے اور جب یہ صورت نہ ہو تو طلب جاہ مذموم نہیں۔ حدیث میں خود رسول اللہ ﷺ سے یہ دعا منقول ہے۔ (اللھم اجعلنی فی عینی صغیرا وفی اعین الناس کبیرا یعنی یا اللہ مجھے خود اپنی نگاہ میں تو چھوٹا اور حقیر بنا دیجئے اور لوگوں کی نظر میں بڑا بنا دیجئے۔ یہاں بھی لوگوں کی نظر میں بڑا بنانے کا مقصد یہ ہے کہ لوگ نیک اعمال میں میری پیروی کریں۔ اسی لئے امام مالک نے فرمایا کہ جو شخص واقع میں صالح اور نیک ہو، لوگوں کی نظر میں نیک بننے کے لئے ریاکاری نہ کرے اس کے لئے لوگوں کی طرف سے مدح و ثنا کی محبت مذموم نہیں۔
ابن عربی نے فرمایا کہ آیت مذکورہ سے ثابت ہوا کہ جس نیک عمل سے لوگوں میں تعریف ہوتی ہو اس نیک عمل کی طلب و خواہش جائز ہے اور امام غزالی نے فرمایا کہ دنیا میں عزت و جاہ کی محبت تین شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔ اول یہ ہے کہ اس سے مقصود اپنے آپ کو بڑا اور اس کے بالمقابل دوسرے کو چھوٹا یا حقیہ قرار دینا نہ ہو بلکہ آخرت کے فائدہ کے لئے ہو کہ لوگ میرے معتقد ہو کر نیک اعمال میں میرا اتباع کریں۔ دوسرے یہ کہ جھوٹی ثناء خوانی مقصود نہ ہو کہ جو صفت اپنے اندر نہیں ہے لوگوں سے اس کی خواہش رکھے کہ وہ اس صفت میں اس کی تعریف کریں۔ تیسرے یہ کہ اس کے حاصل کرنے کے لئے کسی گناہ یا دین کے معاملے میں مداہنت اختیار نہ کرنی پڑے۔
Top