Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 86
وَ اغْفِرْ لِاَبِیْۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّیْنَۙ
وَاغْفِرْ : اور بخشدے لِاَبِيْٓ : میرے باپ کو اِنَّهٗ : بیشک وہ كَانَ : وہ ہے مِنَ : سے الضَّآلِّيْنَ : گمراہ (جمع)
اور معاف کر میرے باپ کو وہ تھا راہ بھولے ہوؤں میں
مشرکین کے لئے دعائے مغفرت جائز نہیں
وَاغْفِرْ لِاَبِيْٓ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّاۗلِّيْنَ ، قرآن مجید کے اس فرمان کے بعد مَا كَان للنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ) اب کسی ایسے شخص کے لئے جس کا کفر پر مرنا یقینی ہو استغفار اور دعائے مغفرت طلب کرنا ناجائز اور حرام ہے کیونکہ آیت مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے کہ کسی نبی اور ایمانداروں کے لئے یہ قطعاً جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت طلب کریں خواہ وہ اس کے رشتہ دار اور قریبی ہی کیوں نہ ہوں جبکہ ان کا جہنمی ہونا بالکل واضح ہوچکا ہو۔
ایک سوال و جواب
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوجاتا ہے کہ اس نہی اور ممانعت کے بعد پھر حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے مشرک باپ کے لئے کیوں دعائے مغفرت مانگی۔ اس کا جواب خود اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں دے دیا کہ وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ (توبہ)
جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے باپ کے لئے ان کی زندگی میں استغفار اس نیت اور خیال سے کی تھی کہ اللہ رب العزت ان کو ایمان لانے کی توفیق دے جس کے بعد مغفرت یقینی ہے یا حضرت ابراہیم ؑ کا یہ خیال تھا کہ میرا باپ خفیہ طور پر ایمان لے آیا ہے اگرچہ اس کا اظہار اور اعلان نہیں کیا لیکن جب حضرت ابراہیم ؑ کو معلوم ہوگیا کہ میرا باپ تو کفر پر مرا ہے تو انہوں نے اپنی پوری بیزاری اور براة کا اظہار فرمایا۔ (فائدہ) اس بات کی تحقیق کہ حضرت ابراہیم ؑ کو باپ کا کفر اور شرک اپنے باپ کی زندگی میں معلوم ہوگیا تھا یا مرنے کے بعد یا قیامت کے روز ہوگا، اس کی پوری تفصیل سورة توبہ میں مذکور ہے۔
Top