Maarif-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 88
یَوْمَ لَا یَنْفَعُ مَالٌ وَّ لَا بَنُوْنَۙ
يَوْمَ : جس دن لَا يَنْفَعُ : نہ کام آئے گا مَالٌ : مال وَّلَا : اور نہ بَنُوْنَ : بیٹے
جس دن نہ کام آئے کوئی مال اور نہ بیٹے
يَوْمَ لَا يَنْفَعُ مَالٌ وَّلَا بَنُوْنَ ، اِلَّا مَنْ اَتَى اللّٰهَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍ ، یعنی قیامت کے اس دن میں جس میں نہ کوئی مال کسی کو فائدہ دے گا نہ اس کی نرینہ اولاد بجز اس شخص کے جو اللہ کے پاس قلب سلیم لے کر پہنچے۔ اس آیت کی تفسیر بعض حضرات نے استثناء کو استثنائے منقطع قرار دے کر یہ کی ہے کہ اس روز کسی کو نہ اس کا مال کام آوے گا نہ اولاد، ہاں کام آئے گا تو صرف اپنا قلب سلیم جس میں شرک و کفر نہ ہو اور اس جملے کی مثال ایسی ہوگی جیسے کوئی شخص زید کے متعلق کسی سے پوچھے کہ کیا زید کے پاس مال اور اولاد بھی ہے وہ اس کے جواب میں کہے اس کا مال و اولاد تو اس کا قلب سلیم ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مال و اولاد تو کچھ نہیں مگر ان سب کے بدلے اس کے پاس اپنا قلب سلیم موجود ہے۔ خلاصہ مضمون آیت کا اس تفسیر پر یہ ہوتا ہے کہ مال یا اولاد تو اس روز کچھ کام نہ آئیں گے، کام صرف اپنا ایمان اور عمل صالح آئے گا جس کو قلب سلیم سے تعبیر کردیا گیا ہے اور مشہور تفسیر اکثر مفسرین کے نزدیک یہ ہے کہ استثناء متصل ہے اور معنے یہ ہیں کہ مال اور اولاد قیامت کے روز کسی شخص کے کام نہ آئیں گے بجز اس شخص کے جس کا قلب سلیم ہے یعنی وہ مومن ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ یہ سب چیزیں قیامت میں بھی مفید و نافع ہو سکتی ہیں مگر صرف مومن کے لئے نفع بخش ہوں گی کافر کو کچھ نفع نہ دیں گی۔ یہاں ایک بات یہ قابل نظر ہے کہ اس جگہ قرآن کریم نے وّلَا بَنُوْنَ فرمایا جس کے معنے نرینہ اولاد کے ہیں عام اولاد کا ذکر غالباً اس لئے نہیں کیا کہ آڑے وقت میں کام آنے کی توقع دنیا میں بھی نرینہ اولاد یعنی لڑکوں ہی سے ہو سکتی ہے لڑکیوں سے کسی مصیبت کے وقت امداد ملنے کا تو یہاں بھی احتمال شاذ و نادر ہی ہوتا ہے اس لئے قیامت میں بالتخصیص لڑکوں کے غیر نافع ہونے کا ذکر کیا گیا جن سے دنیا میں توقع نفع کی رکھی جاتی تھی۔
دوسری بات یہ ہے کہ قلب سلیم کے لفظی معنے تندرست دل کے ہیں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ اس سے مراد وہ قلب ہے جو کلمہ توحید کی گواہی دے اور شرک سے پاک ہو، یہی مضمون مجاہد حسن بصری سعید بن مسیب سے بعنوان مختلف منقول ہے۔ سعید بن مسیب نے فرمایا کہ تندرست دل صرف مومن کا ہوسکتا ہے۔ کافر کا دل بیمار ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کا ارشاد ہے فِىْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ
مال و اولاد اور خاندانی تعلقات آخرت میں بھی بشرط ایمان نفع پہنچا سکتے ہیں
آیت مذکورہ کی مشہور تفسیر کے مطابق معلوم ہوا کہ انسان کا مال قیامت کے روز بھی اس کے کام آسکتا ہے بشرطیکہ وہ مسلمان ہو۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جس شخص نے دنیا میں اپنا مال اللہ کی راہ اور نیک کاموں میں خرچ کیا تھا یا کوئی صدقہ جاریہ کر کے چھوڑا تھا۔ اگر اس کا خاتمہ ایمان پر ہوا محشر میں مومنین کی فہرست میں داخل ہوا تو یہاں کا خرچ کیا ہوا مال اور صدقہ جاریہ کا ثواب اس کو میدان حشر اور میزان حساب میں بھی کام آوے گا اور اگر یہ شخص مسلمان نہیں تھا یا خدانخواستہ مرنے سے پہلے ایمان سے نکل گیا تو اب دنیا میں کیا ہوا کوئی نیک عمل اس کے کام نہ آوے گا اور اولاد کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اگر یہ شخص مسلمان ہے تو آخرت میں بھی اس کو اولاد کا فائدہ پہنچ سکتا ہے اس طرح سے کہ اس کے بعد اس کی اولاد اس کے لئے دعائے مغفرت کرے یا ایصال ثواب کرے، اور اس طرح بھی کہ اس نے اولاد کو نیک بنانے کی کوشش کی تھی اس لئے ان کے نیک عمل کا ثواب اس کو بھی خود بخود ملتا رہا اور اس کے نامہ اعمال میں درج ہوتا رہا اور اس طرح بھی کہ اولاد محشر میں اس کی شفاعت کر کے بخشوا لے جیسا کہ بعض روایات حدیث میں ایسی شفاعت کرنا اور اس کا قبول ہونا ثابت ہے خصوصاً نابالغ اولاد کا۔ اسی طرح اولاد کو ماں باپ سے بھی آخرت میں بشرط ایمان یہ نفع پہنچے گا کہ اگر یہ مسلمان ہوئے مگر ان کے اعمال صالحہ ماں باپ کے درجے کو نہیں پہنچے تو اللہ تعالیٰ ان کے باپ دادا کی رعایت کر کے ان کو بھی اسی مقام بلند میں پہنچا دیں گے جو ان کے باپ دادا کا مقام ہے، قرآن کریم میں اس کی تصریح اس طرح مذکور ہے وَ اَلْحَـقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ یعنی ہم ملا دیں گے اپنے نیک بندوں کے ساتھ ان کی ذریت کو بھی۔ اس آیت کی مذکور الصدر مشہور تفسیر سے معلوم ہوا کہ قرآن حدیث میں جہاں کہیں یہ مذکور ہے کہ قیامت میں خاندانی تعلق کچھ کام نہ آوے گا اس کی مراد یہ ہے کہ غیر مومن کو کام نہ آوے گا یہاں تک کہ پیغمبر کی اولاد اور بیوی بھی اگر مومن نہیں تو ان کی پیغمبری سے ان کو قیامت میں کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا جیسا کہ حضرت نوح ؑ کے بیٹے اور لوط ؑ کی بیوی اور ابراہیم ؑ کے والد کا معاملہ ہے۔ آیات قرآن فَاِذَا نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَلَآ اَنْسَابَ بَيْنَهُمْ اور يَوْمَ يَفِرُّ الْمَرْءُ مِنْ اَخِيْهِ وَاُمِّهٖ وَاَبِيْهِ) اور لّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ) ان سب آیات کا یہی مفوم ہوسکتا ہے۔ واللہ اعلم
Top