Maarif-ul-Quran - An-Naml : 15
وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا : اور تحقیق دیا ہم نے دَاوٗدَ : داود وَسُلَيْمٰنَ : اور سلیمان عِلْمًا : (بڑا) علم وَقَالَا : اور انہوں نے کہا الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْ : وہ جس نے فَضَّلَنَا : فضیلت دی ہمیں عَلٰي : پر كَثِيْرٍ : اکثر مِّنْ : سے عِبَادِهِ : اپنے بندے الْمُؤْمِنِيْنَ : مون (جمع)
اور ہم نے دیا داؤد اور سلیمان کو ایک علم اور بولے شکر اللہ کا جس نے ہم کو بزرگی دی اپنے بہت سے بندوں ایمان والوں پر
خلاصہ تفسیر
اور ہم نے داؤد ؑ اور سلیمان ؑ کو (شریعت اور حکمرانی کا) علم عطا فرمایا اور ان دونوں نے (ادائے شکر کے لئے) کہا کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے سزاوار ہیں جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت دی اور داؤد (علیہ السلام کی وفات کے بعد ان) قائم مقام سلیمان ؑ ہوئے (یعنی ان کو سلطنت وغیرہ ملی) اور انہوں نے (اظہار شکر کے لئے) کہا کہ اے لوگوہم کو پرندوں کی بولی (سمجھنے) کی تعلیم کی گئی ہے (جو دوسرے بادشاہوں کو حاصل نہیں) اور ہم کو (سامان سلطنت کے متعلق) ہر قسم کی (ضروری) چیزیں دی گئی ہیں (جیسے فوج، لشکر مال اور آلات جنگ وغیرہ) واقعی یہ (اللہ تعالیٰ کا) کھلا ہوا فضل ہے اور سلیمان (علیہ السلام کے پاس سامان سلطنت بھی عجیب و غریب تھا چناچہ ان) کے لئے (جو) ان کا لشکر جمع کیا گیا (تھا ان میں) جن بھی (تھے) اور انسان بھی اور پرندے بھی (جو کسی بادشاہ کے تابع نہیں ہوتے) اور (پھر تھے بھی اس کثرت سے کہ) ان کو (چلنے کے قوت) روکا (جایا کرتا) تھا (تاکہ متفرق نہ ہوجاویں پیچھے والے بھی پہنچ جاویں یہ بات عادة نہایت کثرت میں ہوتی ہے کیونکہ تھوڑے مجمع میں تو اگلا آدمی خود ہی ایسے وقت رک جاتا ہے اور بڑے مجمع میں اگلوں کو پچھلوں کی خبر بھی نہیں ہوتی اس لئے اس کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ ایک بار اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ تشریف لئے جاتے تھے) یہاں تک کہ جب وہ چیونٹیوں کے ایک میدان میں آئے تو ایک چیونٹی نے (دوسری چیونٹیوں سے) کہا کہ اے چیونٹیو، اپنے اپنے سوراخوں میں جا گھسو، کہیں تم کو سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں کچل نہ ڈالے سو سلیمان (علیہ السلام نے اس کی بات سنی اور) اس کی بات سے (متعجب ہو کر کہ اس چھوٹے وجود پر یہ ہوشیاری اور احتیاط) مسکراتے ہوئے ہنس پڑے اور (یہ دیکھ کر کہ میں اس کی بولی سمجھ گیا جو کہ معجزہ ہونے کی وجہ سے ایک نعمت عظیمہ ہے اور نعمتیں بھی یاد آگئیں اور) کہنے لگے کہ اے میرے رب مجھ کو اس پر ہمیشگی دیجئے کہ میں آپ کی ان نعمتوں کا شکر کیا کروں جو آپ نے مجھ کو اور میرے ماں باپ کو عطا فرمائی ہیں (یعنی ایمان اور علم سب کو اور نبوت خود کو اور اپنے والد داؤد ؑ کو) اور (اس پر بھی ہمیشگی دیجئے کہ) میں نیک کام کیا کروں جس سے آپ خوش ہوں (یعنی عمل مقبول ہو کیونکہ اگر حقیقت میں عمل نیک ہو اور آداب و شرائط کی کمی کی وجہ سے مقبول نہ ہو وہ مقصود نہیں ہے) اور مجھ کو اپنی رحمت (خاصہ) سے اپنے (اعلی درجہ کے) نیک بندوں (انبیاء) میں داخل رکھئے (یعنی قرب کو بعد میں تبدیل نہ کیجئے۔)

معارف و مسائل
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ عِلْمًا، ظاہر ہے کہ اس سے مراد علوم انبیاء ہیں جو نبوت و رسالت سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس کے عموم میں دوسرے علوم و فنون بھی شامل ہوں تو بعید نہیں جیسے حضرت داؤد ؑ کو زرہ سازی کی صنعت سکھا دی گئی تھی۔ حضرت داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) زمرہ انبیاء میں ایک خاص امتیاز یہ رکھتے ہیں کہ ان کو نبوت و رسالت کے ساتھ سلطنت بھی دی گئی تھی اور سلطنت بھی ایسی بےنظیر کہ صرف انسانوں پر نہیں بلکہ جنات اور جانوروں پر بھی ان کی حکمرانی تھی ان سب عظیم الشان نعمتوں سے پہلے حق تعالیٰ کی نعمت علم کا ذکر فرمانے سے اس طرف اشارہ ہوگیا کہ نعمت علم تمام دوسری نعمتوں سے فائق اور بالاتر ہے۔ (قرطبی)
Top