Maarif-ul-Quran - An-Naml : 22
فَمَكَثَ غَیْرَ بَعِیْدٍ فَقَالَ اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ وَ جِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۭ بِنَبَاٍ یَّقِیْنٍ
فَمَكَثَ : سو اس نے دیر کی غَيْرَ بَعِيْدٍ : تھوڑی سی فَقَالَ : پھر کہا اَحَطْتُّ : میں نے معلوم کیا ہے بِمَا : وہ جو لَمْ تُحِطْ بِهٖ : تم کو معلوم نہیں وہ وَجِئْتُكَ : اور میں تمہارے پاس لایا ہوں مِنْ : سے سَبَاٍ : سبا بِنَبَاٍ : ایک خبر يَّقِيْنٍ : یقینی
پھر بہت دیر نہ کی کہ آ کر کہا میں لے آیا خبر ایک چیز کی کہ تجھ کو اس کی خبر نہ تھی اور آیا ہوں تیرے پاس سبا سے ایک خبر لیکر تحقیقی
اَحَطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِهٖ ، یعنی ہدہد نے اپنا عذر بتلاتے ہوئے کہا کہ مجھے وہ چیز معلوم ہے جو آپ کو معلوم نہیں، یعنی میں ایک ایسی خبر لایا ہوں جس کا آپ کو پہلے علم نہیں تھا۔
انبیاء (علیہم السلام) عالم الغیب نہیں ہوتے
امام قرطبی نے فرمایا کہ اس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) عالم الغیب نہیں ہوتے جس سے ان کو ہر چیز کا علم ہو سکے۔
وَجِئْتُكَ مِنْ سَبَاٍۢ بِنَبَاٍ يَّقِيْنٍ ، سباء، یمن کا ایک مشہور شہر جس کا ایک نام مارب بھی ہے۔ اس کے اور یمن کے دارالحکومت صنعاء کے درمیان تین دن کی مسافت تھی۔
کیا چھوٹے آدمی کو یہ حق ہے کہ اپنے بڑوں سے کہے کہ مجھے آپ سے زیادہ علم ہے
ہدہد کی مذکورہ گفتگو سے بعض لوگوں نے اس پر استدلال کیا ہے کہ کوئی شاگرد اپنے استاد سے یا غیر عالم عالم سے کہہ سکتا ہے کہ اس مسئلہ کا علم مجھے آپ سے زیادہ ہے بشرطیکہ اس کو اس مسئلہ کا واقعی طور پر مکمل علم دوسروں سے زائد ہو۔ مگر روح المعانی میں فرمایا کہ یہ طرز گفتگو اپنے مشائخ اور بڑوں کے سامنے خلاف ادب ہے اس سے احتراز کرنا چاہئے اور ہدہد کے قول سے اس پر استدلال اس لئے نہیں ہوسکتا کہ اس نے یہ بات اپنے آپ کو سزا سے بچانے اور عذر کے قوی ہونے کے لئے کہی ہے تاکہ اس کی غیر حاضری کا عذر پوری طرح حضرت سلیمان کے سامنے آجائے ایسی ضرورت میں ادب کی رعایت رکھتے ہوئے کوئی بات کی جائے تو مضائقہ نہیں۔
Top