Maarif-ul-Quran - An-Naml : 28
اِذْهَبْ بِّكِتٰبِیْ هٰذَا فَاَلْقِهْ اِلَیْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ فَانْظُرْ مَا ذَا یَرْجِعُوْنَ
اِذْهَبْ : تو لے جا بِّكِتٰبِيْ : میرا خط ھٰذَا : یہ فَاَلْقِهْ : پس اسے ڈال دے اِلَيْهِمْ : ان کی طرف ثُمَّ تَوَلَّ : پھر لوٹ آ عَنْهُمْ : ان سے فَانْظُرْ : پھر دیکھ مَاذَا : کیا يَرْجِعُوْنَ : وہ جواب دیتے ہیں
لے جا میرا یہ خط اور ڈال دے ان کی طرف پھر ان کے پاس سے ہٹ آ پھر دیکھ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
تحریر اور خط بھی عام معاملات میں حجت شرعیہ ہے
اِذْهَبْ بِّكِتٰبِيْ ھٰذَا، حضرت سلیمان ؑ نے ملکہ سبا کے نام خط بھیجنے کو اس پر اتمام حجت کے لئے کافی سمجھا اور اس پر عمل فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عام معاملات میں تحریر و خط قابل اعتبار ثبوت ہے۔ فقہاء ؒ نے صرف ان مواقع میں خط کو کافی نہیں سمجھا جہاں شہادت شرعیہ کی ضرورت ہے کیونکہ خط اور ٹیلیفون وغیرہ کے ذریعہ شہادت نہیں لی جاسکتی۔ شہادت کا مدار شاہد کا عدالت کے سامنے آ کر بیان دینے پر رکھا گیا جس میں بڑی حکمتیں مضمر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل بھی دنیا کی کسی عدالت میں خط اور ٹیلیفون پر شہادت لینے کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔
مشرکین کو خط لکھنا اور ان کے پاس بھیجنا جائز ہے
دوسرا مسئلہ حضرت سلیمان ؑ کے اس خط سے یہ ثابت ہوا کہ تبلیغ دین اور دعوت اسلام کے لئے مشرکین اور کفار کو خطوط لکھنا جائز ہے نبی کریم ﷺ سے بھی مختلف کفار کو خطوط بھیجنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔
انسانی اخلاق کی رعایت ہر مجلس میں چاہئے اگرچہ وہ مجلس کفار ہی کی ہو
فَاَلْقِهْ اِلَيْهِمْ ثُمَّ تَوَلَّ عَنْهُمْ ، حضرت سلیمان ؑ نے ہدہد سے نامہ بری کا کام لیا تو اس کو یہ ادب مجلس بھی سکھایا کہ خط ملکہ سبا کو پہنچا کر وہیں سر پر سوار نہ رہے بلکہ وہاں سے ذرا ہٹ جائے جو عام شاہی مجلسوں کا طریقہ ہے۔ اس میں آداب معاشرت اور انسانی اخلاق کا عام مخلوقات کے ساتھ مطلوب ہونا معلوم ہوا۔
Top