Maarif-ul-Quran - An-Naml : 76
اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَقُصُّ عَلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَكْثَرَ الَّذِیْ هُمْ فِیْهِ یَخْتَلِفُوْنَ
اِنَّ : بیشک هٰذَا : یہ الْقُرْاٰنَ : قرآن يَقُصُّ : بیان کرتا ہے عَلٰي بَنِيْٓ اِسْرَآءِيْلَ : بنی اسرائیل پر اَكْثَرَ : اکثر الَّذِيْ : وہ جو هُمْ : وہ فِيْهِ : اس میں يَخْتَلِفُوْنَ : اختلاف کرتے ہیں
یہ قرآن سناتا ہے بنی اسرائیل کو بہت چیزیں جس میں وہ جھگڑ رہے ہیں
خلاصہ تفسیر
بیشک یہ قرآن بنی اسرائیل پر اکثر ان باتوں (کی حقیقت) کو ظاہر کرتا ہے جس میں وہ اختلاف کرتے ہیں اور وہ ایمانداروں کے لئے (خاص) ہدایت اور (خاص) رحمت ہے (ہدایت باعتبار طاعات و اعمال کے اور رحمت با اعتبار ثمرات و نتائج کے) بالیقین آپ کا رب ان کے درمیان اپنے حکم سے (وہ عملی) فیصلہ (قیامت کے دن) کرے گا (اس وقت معلوم ہوجاوے گا کہ دین حق کیا تھا اور باطل کیا، تو ایسے لوگوں پر کیا افسوس کیا جائے) اور وہ زبردست علم والا ہے (بدون اس کی مشیت کے کوئی کسی کو ضرر نہیں پہنچا سکتا) تو آپ اللہ پر توکل رکھئے (اللہ کی مدد ضرور ہوگی کیونکہ) آپ صریح حق پر ہیں۔

معارف و مسائل
پہلی آیات میں حق تعالیٰ کی قدرت کاملہ کو مختلف مثالوں سے ثابت کر کے یہ بات ثابت کردی گئی ہے کہ قیامت کا وقوع اور اس میں مردوں کا دوبارہ زندہ ہونا عقلاً ممکن ہے اس میں کوئی عقلی اشکال نہیں۔ عقلی امکان کے ساتھ اس کا ضرور واقع ہونا یہ انبیاء (علیہم السلام) اور آسمانی کتابوں کی نقل سے ثابت ہے اور کسی خبر کا صحیح اور ثابت ہونا اس پر موقوف ہے کہ اس کا ناقل مخبر اور روایت کرنے والا صادق اور سچا ہو۔ اس لئے اس آیت میں یہ بیان فرمایا ہے کہ اس کا مخبر قرآن ہے اور اس کا مخبر صادق ہونا ناقابل انکار ہے، یاں تک کہ علماء بنی اسرائیل جن مسائل میں باہم سخت اختلافات رکھتے تھے اور وہ حل نہ ہوتے تھے قرآن حکیم نے ان مسائل میں محاکمہ کر کے صحیح فیصلوں کی ہدایت فرمائی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ علماء کے اختلاف میں محاکمہ اور فیصلہ کرنے والا ان سب علماء سے اعلم اور اعلی ہونا ضروری ہے اس لئے قرآن کا مخبر صادق ہونا واضح ہوگیا، اس کے بعد رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے لئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ ان کی مخالفت سے تنگدل نہ ہوں، اللہ تعالیٰ خود آپ کا فیصلہ کرنے والا ہے آپ اللہ پر بھروسہ رکھیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد حق کے ساتھ ہے اور آپ کا طریق حق پر ہونا یقینی ہے۔
Top