Maarif-ul-Quran - An-Naml : 80
اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى وَ لَا تُسْمِعُ الصُّمَّ الدُّعَآءَ اِذَا وَلَّوْا مُدْبِرِیْنَ
اِنَّكَ : بیشک تم لَا تُسْمِعُ : تم نہیں سنا سکتے الْمَوْتٰى : مردوں کو وَلَاتُسْمِعُ : اور تم نہیں سنا سکتے الصُّمَّ : بہروں کو الدُّعَآءَ : پکار اِذَا وَلَّوْا : جب وہ مڑ جائیں مُدْبِرِيْنَ : پیٹھ پھیر کر
البتہ تو نہیں سنا سکتا مردوں کو اور نہیں سنا سکتا بہروں کو اپنی پکار جب لوٹیں وہ پیٹھ پھیر کر
خلاصہ تفسیر
آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے اور نہ بہروں کو اپنی آواز سنا سکتے ہیں (خصوصاً) جبکہ وہ پیٹھ پھیر کر چل دیں اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے (بچا کر) رستہ دکھانے والے ہیں، آپ تو صرف ان ہی کو سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں کا یقین رکھتے ہیں (اور) پھر وہ مانتے (بھی) ہیں۔

معارف و مسائل
ہمارے رسول کریم ﷺ تمام انسانوں کے ساتھ جو شفقت و ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے اس کا تقاضا تھا کہ سب کو اللہ کا پیغام سنا کر جہنم سے بچا لیں جو لوگ اس پیغام کو قبول نہ کرتے تو آپ کو سخت صدمہ پہنچتا تھا اور آپ ایسے غمگین ہوتے تھے جیسے کسی کی اولاد اس کے کہنے کے خلاف آگ میں جا رہی ہو۔ اس لئے قرآن نے جا بجا رسول اللہ ﷺ کی تسلی کے لئے مختلف عنوانات اختیار فرمائے ہیں۔ سابقہ آیات میں وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِيْ ضَيْقٍ ، اسی سلسلہ کا ایک عنوان تھا۔ مذکور الصدر آیت میں بھی تسلی کا مضمون دوسرے انداز سے بیان فرمایا ہے کہ آپ کا کام پیغام حق کو پہنچا دینے کا وہ آپ پورا کرچکے ہیں جن لوگوں نے اس کو قبول نہیں کیا اس میں آپ کا کوئی قصور اور کوتاہی نہیں جس پر آپ غم کریں بلکہ وہ اپنی صلاحیت قبول ہی کو کھو چکے ہیں۔ ان کے گم کردہ صلاحیت ہونے کو اس آیت میں قرآن کریم نے تین مثالوں میں ثابت کیا ہے۔ اول یہ کہ یہ لوگ قبول حق کے معاملہ میں بالکل مردہ لاش کی طرح ہیں جو کسی کی بات سن کر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ دوسرے یہ کہ ان کی مثال اس بہرے آدمی کی ہے جو بہرا ہونے کے ساتھ بات سننا بھی نہیں چاہتا بلکہ جب کوئی سنانا چاہے تو اس سے پیٹھ موڑ کر بھاگتا ہے۔ تیسرے یہ کہ ان کی مثال اندھوں کی سی ہے کہ کوئی ان کو راستہ دکھانا بھی چاہے تو وہ نہیں دیکھ سکتے ان تین مثالوں کا ذکر کرنے کے بعد آخر میں فرمایا۔
Top