Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 17
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِیْرًا لِّلْمُجْرِمِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا رَبِّ بِمَآ : اے میرے رب جیسا کہ اَنْعَمْتَ : تونے انعام کیا عَلَيَّ : مجھ پر فَلَنْ اَكُوْنَ : تو میں ہرگز نہ ہوں گا ظَهِيْرًا : مددگار لِّلْمُجْرِمِيْنَ : مجرموں کا
بولا اے رب جیسا تو نے فضل کردیا مجھ پر پھر میں کبھی نہ ہوں گا مددگار گنہگاروں کا
قَالَ رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ اَكُوْنَ ظَهِيْرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ ، حضرت موسیٰ ؑ کی اس لغزش کو جب حق تعالیٰ نے معاف فرما دیا تو آپ نے اس نعمت کے شکر میں یہ عرض کیا کہ میں آئندہ کسی مجرم کی مدد نہ کروں گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت موسیٰ ؑ نے جس اسرائیلی کی مدد کے لئے یہ اقدام کیا تھا دوسرے واقعہ سے یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ وہ خود ہی جھگڑالو ہے، جھگڑا لڑائی اس کی عادت ہے اس لئے اس کو مجرم قرار دے کر آئندہ کسی ایسے شخص کی مدد نہ کرنے کا عہد فرمایا اور حضرت ابن عباس سے اس جگہ مجرمین کی تفسیر کافرین کے ساتھ منقول ہے اور قتادہ نے بھی تقریباً ایسا ہی فرمایا ہے اس تفسیر کی بنا پر واقعہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اسرائیلی جس کی امداد موسیٰ ؑ نے کی تھی یہ بھی مسلمان نہ تھا مگر اس کو مظلوم سمجھ کر امداد فرمائی۔ حضرت موسیٰ ؑ کے اس ارشاد سے دو مسئلے ثابت ہوئے۔
مسئلہاول یہ کہ مظلوم اگرچہ کافر یا فاسق ہی ہو اس کی امداد کرنا چاہئے۔ دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کسی مجرم ظالم کی مدد کرنا جائز نہیں۔ علماء نے اس آیت سے استدلال فرما کر ظالم حکام کی ملازمت کو بھی ناجائز قرار دیا ہے کہ وہ بھی ان کے ظلم کے شریک سمجھے جائیں گے اور اس پر سلف صالحین سے متعدد روایات نقل کی ہیں (کما فی روح المعانی) کفار یا ظالموں کی امداد و اعانت کی مختلف صورتیں ہیں اور ان کے احکام کتب فقہ میں مفصل مذکور ہیں۔ احقر نے احکام القرآن میں بزبان عربی اسی آیت کے ذیل میں اس مسئلہ کی پوری تحقیق و تنقیح لکھ دی ہے اہل علم اس کو دیکھ سکتے ہیں۔
Top