Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 22
وَ لَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَآءَ مَدْیَنَ قَالَ عَسٰى رَبِّیْۤ اَنْ یَّهْدِیَنِیْ سَوَآءَ السَّبِیْلِ
وَلَمَّا : اور جب تَوَجَّهَ : اس نے رخ کیا تِلْقَآءَ : طرف مَدْيَنَ : مدین قَالَ : کہا عَسٰى : امید ہے رَبِّيْٓ : میرا رب اَنْ يَّهْدِيَنِيْ : کہ مجھے دکھائے سَوَآءَ السَّبِيْلِ : سیدھا راستہ
اور جب منہ کیا مدین کی سیدھ پر بولا امید ہے کہ میرا رب لے جائے مجھ کو سیدھی راہ پر
خلاصہ تفسیر
اور جب موسیٰ (علیہ السلام یہ دعا کر کے ایک سمت کو توکلا علی اللہ چلے اور بتائید غیبی) مدین کی طرف ہو لئے (چونکہ راستہ معلوم نہ تھا اس لئے تقویت و توکل اور نفس کو تسکین دینے کے لئے آپ ہی آپ) کہنے لگے کہ امید ہے کہ میرا رب مجھ کو (کسی مقام امن کا) سیدھا راستہ چلاوے گا (چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مدین جا پہنچے) اور جب مدین کے پانی (یعنی کنوئیں) پر پہنچے تو اس پر (مختلف) آدمیوں کا ایک مجمع دیکھا جو (اس کنوئیں سے کھینچ کھینچ کر اپنے مواشی کو) پانی پلا رہے تھے اور ان لوگوں سے ایک طرف (الگ) دو عورتیں دیکھیں کہ وہ (اپنی بکریاں) روکے کھڑی ہیں، موسیٰ ؑ نے (ان سے) پوچھا تمہارا کیا مطلب ہے وہ دونوں بولیں کہ (ہمارا معمول یہ ہے کہ) ہم (اپنے جانوروں کو) اس وقت تک پانی نہیں پلاتے جب تک کہ یہ چرواہے (جو کنوئیں پر پانی پلا رہے ہیں) پانی پلا کر (جانوروں کو) ہٹا کر نہ لے جاویں (ایک تو حیا کے سبب، دوسرے مردوں سے مزاحمت ناتوانوں سے کب ہو سکتی ہے) اور (اس حالت میں ہم آتے بھی نہیں مگر) ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں (اور گھر پر اور کوئی کام کرنے والا ہی نہیں اور کام ضروری ہے اس مجبوری کو ہم کو آنا پڑتا ہے) پس (یہ سن کر) موسیٰ (علیہ السلام کو رحم آیا اور انہوں نے) ان کے لئے پانی (کھینچ کر ان کے جانوروں کو) پلایا (ور ان کو انتظار اور پانی کھینچنے کی تکلیف سے بچایا) پھر (وہاں سے) ہٹ کر (ایک) سایہ (کی جگہ) میں جا بیٹھے (خواہ کسی پہاڑ کا سایہ ہو یا کسی درخت کا) پھر (جناب باری میں) دعا کی کہ اے میرے پروردگار (اس وقت) جو نعمت بھی (قلیل یا کثیر) آپ مجھ کو بھیج دیں میں اس کا (سخت) حاجتمند ہوں (کیونکہ اس سفر میں کچھ کھانے پینے کو نہ ملا تھا۔ حق تعالیٰ نے اس کا یہ سامان کیا کہ وہ دونوں بیبیاں اپنے گھر لوٹ کر گئیں تو باپ نے معمول سے جلدی آجانے کی وجہ دریافت کی، انہوں نے موسیٰ ؑ کا پورا قصہ بیان کیا انہوں نے ایک لڑکی کو بھیجا کہ ان کو بلا لاؤ) موسیٰ ؑ کے پاس ایک لڑکی آئی کہ شرماتی ہوئی چلتی تھی (جو کہ اہل شرف کی طبعی حالت ہے اور آ کر) کہنے لگی کہ میرے والد تم کو بلاتے ہیں تاکہ تم کو اس کا صلہ دیں جو تم نے ہماری خاطر (ہمارے جانوروں کو) پانی پلا دیا تھا (یہ ان صاحبزادی کو اپنے والد کی عادت سے معلوم ہوا ہوگا کہ احسان کی مکافات کیا کرتے ہوں گے۔ موسیٰ ؑ ساتھ ہو لئے گو مقصود موسیٰ ؑ کا بالیقین اپنی خدمت کا معاوضہ لینا نہ تھا لیکن مقام امن اور کسی رفیق شفیق کے ضرور باقتضائے وقت جویاں تھے اور اگر بھوک کی شدت بھی اس جانے کا ایک جزو علت ہو تو مضائقہ نہیں اور اس کو اجرت سے کچھ تعلق نہیں اور ضیافت کی تو استدعا بھی بالخصوص حاجت کے وقت اور خصوصاً کریم و شریف آدمی سے کچھ ذلت نہیں چہ جائیکہ دوسرے کی استدعا پر ضیافت کا قبول کرلینا، راہ میں موسیٰ ؑ نے ان بی بی سے فرمایا کہ تم میرے پیچھے ہوجاؤ میں اولاد ابراہیم سے ہوں، اجنبیہ کو بےوجہ بےقصد دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا، غرض اسی طرح ان بزرگ کے پاس پہنچے) سو جب ان کے پاس پہنچے اور ان سے تمام حال بیان کیا تو انہوں نے (تسلی دی اور) کہا کہ (اب) اندیشہ نہ کرو تم ظالم لوگوں سے بچ آئے (کیونکہ اس مقام پر فرعون کی عملداری نہ تھی کذا فی الروح، پھر) ایک لڑکی نے کہا کہ ابا جان (آپ کو آدمی کی ضرورت ہے اور ہم سیانی ہوگئیں اب گھر میں رہنا مناسب ہے تو) آپ ان کو نوکر رکھ لیجئے، کیونکہ اچھا نوکر وہ شخص ہی جو مضبوط (ہو اور) امانت دار (بھی) ہو (اور ان میں دونوں صفتیں ہیں، چناچہ قوت ان کے پانی کھینچنے سے اور امانت ان کے برتاؤ سے، خصوصاً راہ میں عورت کو پیچھے کردینے سے ظاہر ہوتی تھی اور اپنے باپ سے بھی بیان کیا تھا اس پر) وہ (بزرگ موسیٰ ؑ سے) کہنے لگے میں چاہتا ہوں کہ ان دو لڑکیوں میں سے ایک کو تمہارے ساتھ بیاہ دوں اس شرط پر کہ تم آٹھ سال میری نوکری کرو (اور اس نوکری کا بدلہ وہی نکاح ہے، حاصل یہ کہ آٹھ سال کی خدمت اس نکاح کا مہر ہے) پھر اگر تم دس سال پورے کردو تو یہ تمہاری طرف سے (احسان) ہے (یعنی میری طرف سے جبر نہیں) اور میں (اس معاملہ میں) تم پر کوئی مشقت ڈالنا نہیں چاہتا (یعنی کام لینے اور وقت کی پابندی وغیرہ معاملہ کی فروعات میں آسانی برتوں گا اور) تم مجھ کو انشاء اللہ تعالیٰ خوش معاملہ پاؤ گے موسیٰ (علیہ السلام رضا مند ہوگئے اور) کہنے لگے کہ (بس تو) یہ بات میرے اور آپ کے (درمیان (پکی) ہوچکی، میں ان دونوں مدتوں میں سے جس (مدت) کو بھی پورا کر دوں مجھ پر کوئی جبر نہ ہوگا اور ہم جو (معاملہ) کی بات چیت کر رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس کا گواہ (کافی) ہے (اس کو حاضر ناظر سمجھ کر عہد پورا کرنا چاہئے۔)

معارف و مسائل
وَلَمَّا تَوَجَّهَ تِلْقَاۗءَ مَدْيَنَ ، مدین ملک شام کے ایک شہر کا نام ہے جو مدین بن ابراہیم کے نام سے موسوم ہے۔ یہ علاقہ فرعونی حکومت سے خارج تھا۔ مصر سے مدین کی مسافت آٹھ منزل کی تھی۔ حضرت موسیٰ ؑ کو جب فرعونی سپاہیوں کے تعاقب کا طبعی خوف پیش آیا، جو نہ نبوت و معرفت کے منافی ہے نہ توکل کے، تو مصر سے ہجرت کا ارادہ کیا اور مدین کی سمت شاید اس لئے متعین کی کہ مدین بھی اولاد ابراہیم ؑ کی بستی تھی اور حضرت موسیٰ ؑ بھی ان کی اولاد میں تھے۔
اس وقت حضرت موسیٰ ؑ بالکل بےسروسامانی کے ساتھ اس طرح مصر سے نکلے کہ نہ کوئی توشہ ساتھ تھا نہ کوئی سامان اور نہ راستہ معلوم، اسی اضطرار کی حالت میں اللہ تعالیٰ جل شانہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا عَسٰى رَبِّيْٓ اَنْ يَّهْدِيَنِيْ سَوَاۗءَ السَّبِيْلِ ، یعنی امید ہے کہ میرا رب مجھے سیدھا راستہ دکھائے گا، اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ مفسرین کا بیان ہے کہ اس سفر میں حضرت موسیٰ ؑ کی غذا صرف درختوں کے پتے تھے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ حضرت موسیٰ ؑ کا یہ سب سے پہلا ابتلاء اور امتحان تھا۔ موسیٰ ؑ کے ابتلاءات اور امتحانات کی تفصیلات طورہ طہ میں ایک طویل حدیث کے حوالہ سے بیان ہوچکی ہے۔
Top