Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 25
فَجَآءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِیْ عَلَى اسْتِحْیَآءٍ١٘ قَالَتْ اِنَّ اَبِیْ یَدْعُوْكَ لِیَجْزِیَكَ اَجْرَ مَا سَقَیْتَ لَنَا١ؕ فَلَمَّا جَآءَهٗ وَ قَصَّ عَلَیْهِ الْقَصَصَ١ۙ قَالَ لَا تَخَفْ١۫ٙ نَجَوْتَ مِنَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ
فَجَآءَتْهُ : پھر اس کے پاس آئی اِحْدٰىهُمَا : ان دونوں میں سے ایک تَمْشِيْ : چلتی ہوئی عَلَي اسْتِحْيَآءٍ : شرم سے قَالَتْ : وہ بولی اِنَّ : بیشک اَبِيْ : میرا والد يَدْعُوْكَ : تجھے بلاتا ہے لِيَجْزِيَكَ : تاکہ تجھے دے وہ اَجْرَ : صلہ مَا سَقَيْتَ : جو تونے پانی پلایا لَنَا : ہمارے لیے فَلَمَّا : پس جب جَآءَهٗ : اس کے پاس گیا وَقَصَّ : اور بیان کیا عَلَيْهِ : اس سے الْقَصَصَ : احوال قَالَ : اس نے کہا لَا تَخَفْ : ڈرو نہیں نَجَوْتَ : تم بچ آئے مِنَ : سے الْقَوْمِ الظّٰلِمِيْنَ : ظالموں کی قوم
پھر آئی اس کے پاس ان دونوں میں سے ایک چلتی تھی شرم سے بولی میرا باپ تجھ کو بلاتا ہے کہ بدلے میں دے حق اس کا کہ تو نے پانی پلا دیا ہمارے جانوروں کو پھر جب پہنچا اس کے پاس اور بیان کیا اس سے احوال، کہا مت ڈر بچ آیا تو اس قوم بےانصاف سے
فَجَاۗءَتْهُ اِحْدٰىهُمَا تَمْشِيْ عَلَي اسْـتِحْيَاۗءٍ ، قرآنی اسلوب کے مطابق یہاں قصہ کو مختصر کردیا گیا ہے۔ پورا واقعہ یہ ہوا کہ یہ عورتیں اپنے مقررہ وقت سے پہلے جلدی سے گھر پہنچ گئیں تو ان کے والد نے وجہ دریافت کی، لڑکیوں نے واقعہ بتلایا۔ والد نے چاہا کہ اس شخص نے احسان کیا ہے۔ اس کی مکافات کرنا چاہئے اس لئے انہیں لڑکیوں میں سے ایک کو ان کے بلانے کے لئے بھجیا۔ یہ حیا کے ساتھ چلتی ہوئی پہنچی۔ اس میں بھی اشارہ ہے کہ باوجود پردہ کے باقاعدہ احکام نازل نہ ہونے کے نیک عورتیں مردوں سے بےمحابا خطاب نہ کرتی تھیں۔ ضرورت کی بناء پر یہ وہاں پہنچی تو حیاء کے ساتھ بات کی جس کی صورت میں بعض مفسرین نے یہ بیان کی ہے کہ اپنے چہرہ کو آستین سے چھپا کر گفتگو کی۔ روایات تفسیر میں ہے کہ موسیٰ ؑ اس کے ساتھ چلنے لگے تو لڑکی سے کہا کہ تم میرے پیچھے ہوجاؤ اور زبان سے مجھے راستہ بتاتی رہو۔ مقصد یہ تھا کہ ان کی نظر لڑکی پر نہ پڑے شاید اسی سبب سے لڑکی نے اپنے والد سے ان کے متعلق ان کے امین ہونے کا ذکر کیا۔ ان لڑکیوں کے والد کون تھے اس میں مفسرین نے اختلاف نقل کیا ہے مگر آیات قرآن سے ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ شعیب ؑ تھے جیسا کہ قرآن میں ہے وَاِلٰي مَدْيَنَ اَخَاهُمْ شُعَيْبًا (قرطبی)
اِنَّ اَبِيْ يَدْعُوْكَ یہاں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ لڑکی خود ہی اپنی طرف سے ان کو دعوت دیتی مگر ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے والد کا پیغام سنایا کیونکہ کسی اجنبی مرد کو خود دعوت دینا حیاء کے خلاف تھا۔
Top