Maarif-ul-Quran - Al-Qasas : 83
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًا١ؕ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ
تِلْكَ : یہ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ : آخرت کا گھر نَجْعَلُهَا : ہم کرتے ہیں اسے لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے جو لَا يُرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے عُلُوًّا : برتری فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَ : اور لَا فَسَادًا : نہ فساد وَالْعَاقِبَةُ : اور انجام (نیک) لِلْمُتَّقِيْنَ : اور انجام (نیک)
وہ گھر پچھلا ہے ہم دیں گے وہ ان لوگوں کو جو نہیں چاہتے اپنی بڑائی ملک میں اور نہ بگاڑ ڈالنا اور عاقبت بھلی ہے ڈرنے والوں کی
خلاصہ تفسیر
یہ عالم آخرت (جس کے ثواب کا مقصود ہونا اوپر (ثَوَاب اللّٰهِ خَيْرٌ میں بیان ہوا ہے) ہم انہی لوگوں کے لئے خاص کرتے ہیں جو دنیا میں نہ بڑا بننا چاہتے ہیں اور نہ فساد کرنا (یعنی نہ تکبر کرتے ہیں جو باطنی گناہ ہے اور نہ کوئی ظاہری گناہ ایسے کرتے ہیں جس سے زمین میں فساد برپا ہو) اور صرف ان باطنی اور ظاہری برائیوں سے بچنا کافی نہیں بلکہ) نیک نتیجہ متقی لوگوں کو ملتا ہے، (جو برائیوں سے اجتناب کے ساتھ اعمال صالحہ کے بھی پابند ہوں اور کیفیت اعمال پر جزا و سزا کی یہ ہوگی کہ) جو شخص (قیامت کے دن) نیکی لے کر آوے گا اس کو اس (کے متقضا) سے بہتر (بدلہ) ملے گا (کیونکہ نیک عمل کا اصل مقتضی تو یہ ہے کہ اس کی حیثیت کے موافق عوض ملے مگر وہاں اس سے زیادہ دیا جاوے گا جس کا کم سے کم درجہ اس کی حیثیت سے دس گنا ہے) اور جو شخص بدی لے کر آوے گا سو ایسے لوگوں کو جو بدی کا کام کرتے ہیں اتنا ہی بدلہ ملے گا جتنا وہ کرتے تھے (یعنی اس کے مقتضی سے زیادہ بدلہ سزا کا نہ ملے گا۔)

معارف و مسائل
لِلَّذِيْنَ لَا يُرِيْدُوْنَ عُلُوًّا فِي الْاَرْضِ وَلَا فَسَادًا، اس آیت میں دار آخرت کی نجات و فلاح کو صرف ان لوگوں کے لئے مخصوص فرمایا گیا ہے جو زمین میں علو اور فساد کا ارادہ نہ کریں۔ علو سے مراد تکبر ہے یعنی اپنے آپ کو دوسروں سے بڑا بنانے اور دوسروں کو حقیر کرنے کی فکر۔ اور فساد سے مراد لوگوں پر ظلم کرنا ہے (سفیان ثوری) اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ ہر معصیت فساد فی الارض ہے کیونکہ گناہ کے وبال سے دنیا کی برکت میں کمی آتی ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو لوگ تکبر اور ظلم کا یا مطلق معصیت کا ارادہ کریں ان کا آخرت میں حصہ نہیں۔
فائدہتکبر جس کی حرمت اور وبال اس آیت میں ذکر کیا گیا وہ وہی ہے کہ لوگوں پر تفاخر اور ان کی تحقیر مقصود ہو، ورنہ اپنے لئے اچھے لباس اچھی غذا اچھے مکان کا انتظام جب وہ دوسروں کے تفاخر کے لئے نہ ہو مذموم نہیں، جیسا کہ صحیح مسلم کی ایک حدیث میں اس کی تصریح ہے۔
معصیت کا پختہ عزم بھی معصیت ہے
اس آیت میں علو اور فساد کے ارادہ پر دار آخرت سے محروم ہونے کی وعید ہے اس سے معلوم ہوا کہ کسی معصیت کا پختہ ارادہ جو عزم مصمم کے درجہ میں آجائے وہ بھی معصیت ہی ہے (کما فی الروح) البتہ اگر پھر وہ خدا کے خوف سے اس ارادہ کو ترک کر دے تو گناہ کی جگہ ثواب اس کے نامہ اعمال میں درج ہوتا ہے اور اگر کس غیر اختیاری سبب سے اس گناہ پر قدرت نہ ہوئی اور عمل نہ کیا مگر اپنی کوشش گناہ کے لئے پوری کی تو وہ بھی معصیت اور گناہ لکھا جائے گا (کما ذکرہ الغزالی) آخر آیت میں فرمایا والْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ اس کا حاصل یہ ہے کہ آخرت کی نجات اور فلاح کے لئے دو چیزوں علو اور فساد سے اجتناب بھی لازم ہے اور تقوی یعنی اعمال صالحہ کی پابندی بھی صرف ان دو چیزوں سے پرہیز کرلینا کافی نہیں بلکہ جو اعمال ازروئے شرع فرض و واجب ہیں ان پر عمل کرنا بھی نجات آخرت کی شرط ہے۔
Top