Maarif-ul-Quran - Al-Ankaboot : 46
وَ لَا تُجَادِلُوْۤا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُ١ۖۗ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ وَ قُوْلُوْۤا اٰمَنَّا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْكُمْ وَ اِلٰهُنَا وَ اِلٰهُكُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَهٗ مُسْلِمُوْنَ
وَلَا تُجَادِلُوْٓا : اور تم نہ جھگڑو اَهْلَ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اِلَّا : مگر بِالَّتِيْ : اس طریقہ سے جو ھِىَ اَحْسَنُ ڰ : وہ بہتر اِلَّا : بجز الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا : جن لوگوں نے ظلم کیا مِنْهُمْ : ان (میں) سے وَقُوْلُوْٓا : اور تم کہو اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ : ہم ایمان لائے اس پر جو اُنْزِلَ : نازل کیا گیا اِلَيْنَا : ہماری طرف وَاُنْزِلَ : اور نازل کیا گیا اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف وَاِلٰهُنَا : اور ہمارا معبود وَاِلٰهُكُمْ : اور تمہارا معبود وَاحِدٌ : ایک وَّنَحْنُ : اور ہم لَهٗ : اس کے مُسْلِمُوْنَ : فرمانبردار (جمع)
اور جھگڑا نہ کرو اہل کتاب سے مگر اس طرح پر جو بہتر ہو، مگر جو ان میں بےانصاف ہیں اور یوں کہو کہ ہم مانتے ہیں جو اترا ہم کو اور اترا تم کو اور بندگی ہماری اور تمہاری ایک ہی کو ہے اور ہم اسی کے حکم پر چلتے ہیں ،
خلاصہ تفسیر
اور جب پیغمبر ﷺ کی رسالت ثابت ہے تو اے مسلمانوں منکرین رسالت میں سے جو اہل کتاب ہیں ہم ان سے طریقہ گفتگو بتلاتے ہیں اور یہ تخصیص اس لئے کہ اول تو وہ بوجہ اہل علم ہونے کے بات کو سنتے ہیں اور مشرکین تو بات سننے سے پہلے ہی ایذا کے در پے ہوجاتے ہیں، دوسرے اہل علم کے ایمان لے آنے سے عوام کا ایمان زیادہ متوقع ہوجاتا ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ) تم اہل کتاب کے ساتھ بجز مہذب طریقے کے مباحثہ مت کرو ہاں جو ان میں زیادتی کریں (تو ان کو جو ترکی بہ ترکی دین کا مضائقہ نہیں، گو افضل جب بھی طریقہ احسن ہے) اور (وہ مہذب طریقہ یہ ہے کہ مثلاً ان سے) یوں کہو کہ ہم اس کتاب پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہم پر نازل ہوئی اور ان کتابوں پر بھی (ایمان رکھتے ہیں) جو تم پر نازل ہوئیں، (کیونکہ مدار ایمان کا منزل من اللہ ہونا ہے، پس جب ہماری کتاب کا منزل من اللہ ہونا تمہاری کتب سے بھی ثابت ہے پھر تم کو قرآن پر بھی ایمان لانا چاہئے) اور (یہ تم بھی تسلیم کرتے ہو کہ) ہمارا اور تمہارا معبود ایک ہے کقولہ تعالیٰ اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاۗءٍۢ بَيْنَنَا الخ جب توحید متفق علیہ ہے اور اپنے احبارو رہبان کی اطاعت کی وجہ سے نبی آخر الزماں پر ایمان نہ لانا خلاف توحید ہے، تو تم کو ہمارے نبی پر ایمان لانا چاہئے (کقولہ تعالیٰ وَّلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا الخ) اور (اس گفتگو کے ساتھ اپنا مسلمان ہونا تنبیہ کے لئے سنا دو کہ) ہم تو اس کی اطاعت کرتے ہیں (اس میں عقائد و اعمال سب آگئے یعنی اسی طرح تم کو بھی چاہئے جب کہ مقتضی موجود ہے کقولہ تعالیٰ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ) اور (جس طرح ہم نے پہلے انبیاء پر کتابیں نازل کیں) اسی طرح ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی (جس کی بناء پر مجادلہ بالاحسن کی تعلیم کی گئی) سو جن لوگوں کو ہم نے کتاب (کی نافع سمجھ) دی ہے وہ اس (آپ والی) کتاب پر ایمان لے آتے ہیں (اور ان سے مجادلہ کی بھی نوبت شاذ و نادر آتی ہے) اور ان (اہل عرب مشرک) لوگوں میں بھی بعض ایسے (منصف) ہیں کہ اس کتاب پر ایمان لے آتے ہیں (خواہ خود سمجھ کر یا اہل علم کے ایمان سے استدلال کر کے) اور (وضوح دلائل کے بعد) ہماری (اس کتاب کی) آیتوں سے بجز (ضدی) کافروں کے اور کوئی منکر نہیں ہوتا (اوپر مجادلہ کی تقریر دلیل نقلی تھی جس سے خاص اہل نقل کو تخاطب تھا آگے دلیل عقلی ہے جس میں ام تخاطب ہے یعنی) اور (جو لوگ آپ کی نبوت کے منکر ہیں، ان کے پاس کوئی منشاء اشتباہ بھی تو نہیں، کیونکہ) آپ اس کتاب (یعنی قرآن سے پہلے نہ کوئی کتاب پڑھے ہوئے تھے اور نہ کوئی کتاب اپنے ہاتھ سے لکھ سکتے تھے کہ ایسی حالت میں یہ ناحق شناس لوگ کچھ شبہ نکالتے (کہ یہ لکھے پڑھے آدمی ہیں آسمانی کتابیں دیکھ بھال کر ان کی مدد سے مضامین سوچ کر فرصت میں بیٹھ کر لکھ لئے اور یاد کر کے ہم لوگوں کو سنا دیئے یعنی اگر ایسا ہوتا تو کچھ تو منشاء اشتباہ کا ہوتا، گو جب بھی یہ شبہ کرنے والے مبطل ہوتے، کیونکہ اعجاز قرآنی پھر بھی دلالت علی النبوة کے لئے کافی تھا، لیکن اب تو اتنا منشاء اشتباہ بھی نہیں۔ اس لئے یہ کتاب محل ارتیاب نہیں) بلکہ یہ کتاب (باوجود واحد ہونے کے چونکہ ہر حصہ اس کا معجزہ ہے اور حصص کثیر ہیں، اس لئے وہ تنہا گویا) خود بہت سی واضح دلیلیں ہیں ان لوگوں کے ذہن میں جن کو علم عطا ہوا ہے اور (باوجود ظہور اعجاز کے) ہماری آیتوں سے بس ضدی لوگ انکار کئے جاتے ہیں (ورنہ منصف کو تو ذرا شبہ نہیں رہنا چاہئے) اور یہ لوگ (باوجود عطاء معجزہ قرآن کے محض براہ تعنت وعناد) یوں کہتے ہیں کہ ان (پیغمبر) پر ان کے رب کے پاس سے (ہماری فرمائشی) نشانیاں کیوں نہیں نازل ہوئیں، آپ یوں کہہ دیجئے کہ وہ نشانیاں تو خدا کے قبضہ (قدرت) میں ہیں اور (میرے اختیار کی چیزیں نہیں) میں تو صرف ایک صاف صاف (عذاب الہی سے) ڈرانے والا (یعنی رسول) ہوں (اور رسول ہونے پر صحیح دلیلیں رکھتا ہوں جن میں سب سے بڑی دلیل قرآن ہے۔ پھر خاص دلیل کی کیا ضرورت ہے خصوصاً جبکہ اس کے واقع نہ ہونے میں حکمت بھی ہو۔ آگے قرآن کا اعظم فی الدلالتہ ہونا فرماتے ہیں) کیا (دلالت علی النبوة میں) ان لوگوں کو یہ بات کافی نہیں ہوئی کہ ہم نے آپ پر یہ کتاب (معجز) نازل فرمائی ہے جو ان کو (ہمیشہ) سنائی جاتی رہتی ہے (کہ اگر ایک بار سننے سے اعجاز ظاہر نہ ہو تو دوسری بار میں ہوجائے یا اس کے بعد ہوجائے اور دوسرے معجزات میں تو یہ بات بھی نہ ہوتی، کیونکہ اس کا خارق ہونا دائمی نہ ہوتا جیسا ظاہر ہے اور ایک ترجیح اس معجزہ میں یہ ہے کہ) بلاشبہ اس کتاب میں (معجزہ ہونے کے ساتھ) ایمان لانے والے لوگوں کے لئے بڑی رحمت اور نصیحت ہے (رحمت یہ کہ تعلیم احکام کی ہے جو نفع محض ہے اور نصیحت ترغیب و ترہیب سے ہے اور یہ بات دوسرے معجزات میں کب ہوتی، پس ان ترجیحات سے تو اس کو غنیمت سمجھتے اور ایمان لے آتے اور اگر اس وضوح دلائل کے بعد بھی ایمان نہ لائیں تو آخری جواب کے طور پر) آپ کہہ دیجئے کہ (خیر بھائی مت مانو) اللہ میرے اور تمہارے درمیان (میری رسالت کا) گواہ بس ہے اس کو سب چیز کی خبر ہے جو آسمان میں ہے اور زمین میں ہے اور (جب میری رسالت اور اللہ کا علم محیط ثابت ہوا تو) جو لوگ جھوٹی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور اللہ (کی باتوں) کے منکر ہیں (جن میں رسالت بھی داخل ہے) تو وہ لوگ بڑے زیاں کار ہیں (یعنی جب اللہ کے ارشاد سے میری رسالت ثابت ہے تو اس کا انکار کفر باللہ ہے اور اللہ تعالیٰ کا علم محیط ہے تو اس کو اس انکار و کفر کی بھی خبر ہے اور اللہ تعالیٰ کفر پر سزائے خسارہ دیتے ہیں۔ پس لامحالہ ایسے لوگ خاسر ہوں گے) اور یہ لوگ آپ سے عذاب (واقع ہونے کا) تقاضا کرتے ہیں (اور فوراً عذاب نہ آنے سے آپ کی نبوت و رسالت میں شبہ و انکار کرتے ہیں) اور اگر (علم الٰہی میں عذاب آنے کے لئے) میعاد معین نہ ہوتی تو (ان کے تقاضہ کے ساتھ ہے) ان پر عذاب آچکا ہوتا اور (جب وہ معیاد آ جاوے گی تو) وہ عذاب ان پر دفعۃً آپہونچے گا اور ان کو خبر بھی نہ ہوگی (آگے ان لوگوں کی جہالت کے اظہار کے لئے ان کی جلد بازی کو مکرر ذکر کر کے عذاب کی میعاد معین اور اس میں پیش آنے والے عذاب کا ذکر کرتے ہیں کہ) یہ لوگ آپ سے عذاب کا تقاضا کرتے ہیں اور (عذاب کی صورت یہ ہے کہ) اس میں کچھ شک نہیں کہ جہنم ان کافروں کو (چاروں طرف سے) گھیر لے گا جس دن ان پر عذاب ان کے اوپر سے اور ان کے نیچے سے گھیر لے گا اور (اس وقت ان سے) حق تعالیٰ فرمائے گا کہ جو کچھ (دنیا میں) کرتے رہے ہو (اب اس کا مزہ) چکھو۔

معارف و مسائل
وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَهْلَ الْكِتٰبِ اِلَّا بالَّتِيْ ھِىَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا، یعنی اہل کتاب سے بحث و مباحثہ کی نوبت آوے تو مجادلہ بھی ایسے طریقہ سے کرو جو بہتر ہو مثلاً سخت بات کا جواب نرم الفاظ سے، غصہ کا جواب بردباری سے، جاہلانہ شور و شغب کا جواب باوقار گفتگو سے، اِلَّا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا، مگر وہ لوگ جنہوں نے تم پر ظلم کیا کہ تمہاری باوقار نرم گفتگو اور دلائل واضحہ کے مقابلہ میں ضد اور ہٹ دھرمی سے کام لیا تو وہ اس احسان کے مستحق نہیں رہے، بلکہ ایسے لوگوں کا جواب ترکی بہ ترکی دیا جائے تو جائز ہے، اگرچہ اولی اور بہتر اس وقت بھی یہی ہے کہ ان کی بدخوئی کا جواب بدخوئی سے اور ظلم کا جواب ظلم سے نہ دیں۔ بلکہ کج خلقی کے جواب میں خوش خلقی کا اور ظلم کے جواب میں انصاف کا مظاہرہ کریں جیسا کہ دوسری آیات قرآن میں اس کی تصریح ہے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِهٖ ۭوَلَىِٕنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِّلصّٰبِرِيْنَ یعنی اگر ظلم وجور کا بدلہ تم ان سے برابر سرابر لے لو تو تمہیں اس کا حق ہے، لیکن صبر کرو تو یہ زیادہ بہتر ہے۔“
اس آیت میں اہل کتاب سے مجادلہ میں جو ہدایت طریقہ حسنہ کے ساتھ کرنے کی دی گئی ہے یہی سورة نحل میں مشرکین کے متعلق بھی ہے۔ اس جگہ اہل کتاب کی تخصیص اس کلام کی وجہ سے ہے جو بعد میں آ رہا ہے کہ ہمارے اور تمہارے دین میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں تم غور کرو تو ایمان اور اسلام کے قبول کرنے میں تمہیں کوئی مانع نہ ہونا چائے، جیسا کہ ارشاد فرمایا قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ یعنی تم اہل کتاب سے مجادلہ کے وقت ان کو اپنے قریب کرنے کے لئے یہ کہو کہ ہم مسلمان تو اس وحی پر بھی ایمان رکھتے ہیں جو ہماری طرف بواسطہ ہمارے رسول کے بھیجی گئی ہے اور اس وحی پر بھی جو تمہاری طرف تمہارے پیغمبر کے ذریعہ بھیجی گئی ہے، اس لئے ہم سے مخالفت کی کوئی وجہ نہیں۔
کیا اس آیت میں موجودہ تورات و انجیل کے مضامین کی تصدیق کا حکم ہے
اس آیت میں اہل کتاب کی طرف آنے والی کتابوں تورات و انجیل پر مسلمانوں کے ایمان کا تذکرہ جن عنوان سے کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ہم ان کتابوں پر اجمالی ایمان رکھتے ہیں بایں معنی کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کتابوں میں نازل فرمایا تھا اس پر ہمارا ایمان ہے۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ موجودہ تورات و انجیل کے سب مضامین پر ہمارا ایمان ہے جن میں آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں بھی بہت تحریفات ہوچکی تھیں اور اس وقت سے اب تک ان میں تحریف کا سلسلہ چل ہی رہا ہے۔ ایمان صرف ان مضامین تورات و انجیل پر ہے جو اللہ کی طرف سے حضرت موسیٰ و عیسیٰ (علیہما السلام) پر نازل ہوئے تھے، تحریف شدہ مضامین اس سے خارج ہیں۔
موجودہ تورات و انجیل کی مطلقاً تصدیق کی جائے نہ مطلقاً تکذیب
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ کی روایت ہے کہ اہل کتاب تورات و انجیل کو ان کی اصلی زبان عبرانی میں پڑھتے تھے، اور مسلمانوں کو ان کا ترجمہ عربی زبان میں سناتے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے اس کے متعلق مسلمانوں کو یہ ہدایت دی کہ تم اہل کتاب کی نہ تصدیق کرو نہ تکذیب کرو، بلکہ یوں کہو اٰمَنَّا بالَّذِيْٓ اُنْزِلَ اِلَيْنَا وَاُنْزِلَ اِلَيْكُمْ ، یعنی ہم اجمالاً اس وحی پر ایمان لاتے ہیں جو تمہارے انبیاء پر نازل ہوئی ہے اور جو تفصیلات تم بتلاتے ہو وہ ہمارے نزدیک قابل اعتماد نہیں۔ اس لئے ہم اس کی تصدیق و تکذیب سے اجتناب کرتے ہیں۔
Top