Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 102
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ جو کہ اٰمَنُوا : ایمان لائے اتَّقُوا : تم ڈرو اللّٰهَ : اللہ حَقَّ : حق تُقٰتِھٖ : اس سے ڈرنا وَلَا تَمُوْتُنَّ : اور تم ہرگز نہ مرنا اِلَّا : مگر وَاَنْتُمْ : اور تم مُّسْلِمُوْنَ : مسلمان (جمع)
اے ایمان والو ڈرتے رہو اللہ سے جیسا چاہئے اس سے ڈرنا اور نہ مریو مگر مسلمان
ربط آیات
سابقہ آیات میں مسلمانوں کو اس پر تنبیہ کی گئی تھی کہ اہل کتاب اور دوسرے لوگ جو تمہیں گمراہی میں مبتلا کرنا چاہتے ہیں ان کی گمراہی سے باخبر رہ کر بچنے کا اہتمام کریں، مذکورہ دو آیتوں میں مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو مضبوط، ناقابل تسخیر بنانے کے دو اہم اصول بتلائے گئے ہیں۔
اول تقوی، دوسرے باہمی اتفاق و اتحاد، اور تفرق و اختلاف سے بچنا۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو اللہ تعالیٰ سے (ایسا) ڈرا کرو (جیسا) ڈرنے کا حق ہے (کامل ڈرنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شرک و کفر سے بچتے ہو اسی طرح تمام گناہوں سے بھی بچا کرو اور بلا وجہ شرعی لڑنا معصیت ہے تو اس سے بھی بچنا فرض ہے) اور بجز اسلام (کامل) کے (جس کا حاصل وہی ہے جو کامل ڈرنے کا حق تھا) اور کسی حالت پر جان نہ دینا (یعنی اسی کامل تقوی اور کامل اسلام پر تادم مرگ قائم رہنا) اور مضبوط پکڑے رہو، اللہ تعالیٰ کے سلسلہ کو (یعنی اللہ تعالیٰ کے دین کو جس میں اصول و فروع سب آگئے) اس طور پر کہ باہم سب متفق بھی رہو (جس کی اسی دین میں تعلیم بھی ہے) اور باہم نااتفاقی مت کرو (جس کی اسی دین میں ممانعت بھی ہے) اور تم پر جو اللہ تعالیٰ کا انعام (ہوا) ہے اس کو یاد کرو جبکہ تم کم (باہم) دشمن تھے (یعنی قبل اسلام کے، چناچہ اوس و خزرج کے دو قبیلوں میں طویل مدت سے جنگ چلی آتی تھی، اور عام طور پر اکثر عرب کے لوگوں کی یہی حالت تھی) پس اللہ تعالیٰ نے (اب) تمہارے قلوب میں (ایک دوسرے کی) الفت ڈال دی، سو تم اللہ تعالیٰ کے (اس) انعام (تالیف قلوب) سے (اب) آپس میں بھائی بھائی (کی طرح) ہوگئے اور (ایک انعام جو کہ انعام مذکورہ کی بھی اصل ہے یہ فرمایا کہ) تم لوگ (بالکل) دوزخ کے گڑھے کے کنارے (ہی) پر کھڑے تھے (یعنی بوجہ کافر ہونے کے دوزخ سے اتنے قریب تھے کہ بس دوزخ میں جانے کے لئے صرف مرنے کی دیر تھی) سو اس (گڑھے) سے اللہ تعالیٰ نے تمہاری جان بچائی (یعنی اسلام نصیب کیا جس نے جہنم سے نجات دلائی، تو اب تم ان انعاموں کی قدر پہچانو اور آپس کے جدال و قتال سے جو کہ معصیت ہے اللہ کی ان نعمتوں کو زائل نہ کرو، کیونہ باہمی جنگ وجدال سے پہلا انعام سب کے قلوب کا باہم مربوط اور مانوس ہونا تو خود ہی زائل ہوجائے گا، اور دوسرا انعام یعنی دین اسلام بھی اس سے مختل اور کمزور ہوجائے گا اور جس طرح اللہ تعالیٰ نے یہ احکام واضح طور پر بیان فرمائے ہیں) اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کو اپنے (اور) احکام (بھی) بیان کر کے بتلاتے ہیں تاکہ تم لوگ راہ (راست) پر قائم رہو۔
معارف و مسائل
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کے دو اصول، تقوی اور باہمی اتفاق
مذکورہ بالا دو آیتوں میں سے پہلی آیت میں پہلا اصول اور دوسری میں دوسرا بتلایا گیا ہے، پہلا اصول جو مذکورہ آیت نے بتلایا وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے یعنی اس کی ناپسندیدہ چیزوں سے بچنے کا مکمل اہتمام جو اللہ تعالیٰ کے حق کے مطابق ہو۔
لفظ تقوی اصل عربی زبان میں بچنے اور اجتناب کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کا ترجمہ ڈرنا بھی اس مناسبت سے کیا جاتا ہے کہ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ڈرنے ہی کی چیزیں ہوتی ہیں، تاکہ ان سے عذاب الہی کا خطرہ ہے، وہ ڈرنے کی چیز تقوی کے کئی درجات ہیں، ادنی درجہ کفر و شرک سے بچنا ہے، اس معنی کے لحاظ سے ہر مسلمان کو متقی کہا جاسکتا ہے، اگرچہ گناہوں میں مبتلا ہو، اس معنی کے لئے بھی قرآن میں کئی جگہ لفظ متقین اور تقوی استعمال ہوا ہے۔ دوسرا درجہ جو اصل میں مطلوب ہے وہ ہے اس چیز سے بچنا جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ نہیں، تقوی کے فضائل و برکات جو قرآن و حدیث میں آئے ہیں وہ اسی درجہ پر موعود ہیں۔
تیسرا درجہ تقوی کا اعلی مقام ہے جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے خاص نائیبین اولیاء اللہ کو نصیب ہوتا ہے کہ اپنے قلب کو ہر غیر اللہ سے بچانا اور اللہ کی یاد اور اس کی رضا جوئی سے معمور رکھنا، مذکورہ آیت میں اتقوا اللہ کے بعد حق تقاتہ کا کلمہ بڑھا دیا گیا ہے کہ تقوی کا وہ درجہ حاصل کرو جو حق ہے تقوی کا۔
حق تقوی کیا ہے ؟ اس کی تفسیر حضرت عبداللہ بن مسعود اور ربیع اور قتادہ اور حسن بصری ؓ نے یہ فرمائی ہے جو مرفوعا خود رسول اللہ ﷺ سے منقول ہے
" حق تقاتہ ھو ان یطاع فلا یعصی و یذکر فلا ینسی ویشکر فلا یکفر " (بحر محیط) حق تقوی یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت ہر کام میں کی جائے کوئی کام اطاعت کے خلاف نہ ہو اور اس کو ہمیشہ یاد رکھیں کبھی بھولیں نہیں اور اس کا شکر ہمیشہ ادا کریں کبھی ناشکری نہ کریں۔ اسی مفہوم کو ائمہ تفسیر نے دوسرے عنوانات سے بھی ادا کیا ہے، مثلا بعض نے فرمایا کہ حق تقوی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی کی ملامت اور برائی کی پروا نہ کرے اور ہمیشہ انصاف پر قائم رہے، اگرچہ انصاف کرنے میں خود اپنے نفس یا اپنی اولاد یا ماں باپ ہی کا نقصان ہوتا ہو، اور بعض نے فرمایا کہ کوئی آدمی اس وقت تک حق تقوی ادا نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اپنی زبان کو محفوظ نہ رکھے۔
اور قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں جو اتقوا اللہ ما استطعتم ہے یعنی اللہ سے ڈرو جتنا تمہاری قدرت میں ہے تو حضرت ابن عباس ؓ اور طاؤس ؒ نے فرمایا کہ یہ درحقیقت حق تقاتہ کی ہی تفسیر و تشریح ہے اور مطلب یہ ہے کہ معاصی اور گناہوں سے بچنے میں اپنی پوری توانائی اور طاقت صرف کردے تو حق تقوی ادا ہوگیا، اگر کوئی شخص اپنی پوری توانائی صرف کرنے کے بعد کسی ناجائز میں مبتلا ہو ہی گیا تو وہ حقوق تقوی کے خلاف نہیں۔
اگلے جملے میں جو ارشاد فرمایا فلا تموتن الا وانتم مسلمون، اس سے معلوم ہوا کہ تقوی درحقیقت پورا اسلام ہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی مکمل اطاعت اور اس کی نافرمانی میں حکم یہ ہے کہ تمہاری موت اسلام ہی پر آنی چاہیے اسلام کے سوا کسی حال پر موت نہ آتی چاہیے۔
تو یہاں یہ شبہ نہ کیا جائے کہ موت تو آدمی کے اختیار میں نہیں کسی وقت کسی حال میں آسکتی ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کما تحیون تموتون وکما تموتون تحشرون، یعنی جس حالت پر تم اپنی زندگی گزار دو اسی پر موت آئے گی، اور جس حالت میں موت آئے گی اسی حالت میں حشر میں کھڑے کئے جاؤ گے۔ تو جو شخص اپنی پوری زندگی اسلام پر گزارنے کا پختہ عزم رکھتا ہے اور زندگی بھر اس پر عمل کرتا ہے اس کی موت انشاء اللہ اسلام ہی پر آئے گی، بعض روایات حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ بعض آدمی ایسے بھی ہوں گے کہ ساری عمر اعمال صالحہ کرتے ہوئے گزر گئی، آخر میں کوئی ایسا کام کر بیٹھے جس سے سارے اعمال حبط و برباد ہوگئے، یہ ایسے ہی لوگوں کو پیش آسکتا ہے جن کے عمل میں اول اخلاص اور پختگی نہیں تھی۔ واللہ اعلم
Top