Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا : اور مضبوطی سے پکڑ لو بِحَبْلِ : رسی کو اللّٰهِ : اللہ جَمِيْعًا : سب مل کر وَّلَا : اور نہ تَفَرَّقُوْا : آپس میں پھوٹ ڈالو وَاذْكُرُوْا : اور یاد کرو نِعْمَتَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ عَلَيْكُمْ : تم پر اِذْ كُنْتُمْ : جب تم تھے اَعْدَآءً : دشمن (جمع) فَاَلَّفَ : تو الفت ڈال دی بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ : تمہارے دلوں میں فَاَصْبَحْتُمْ : تو تم ہوگئے بِنِعۡمَتِهٖۤ : اس کی نعمت سے اِخْوَانًا : بھائی بھائی وَكُنْتُمْ : اور تم تھے عَلٰي : پر شَفَا : کنارہ حُفْرَةٍ : گڑھا مِّنَ : سے (کے) النَّارِ : آگ فَاَنْقَذَكُمْ : تو تمہیں بچا لیا مِّنْھَا : اس سے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ : واضح کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِھٖ : اپنی آیات لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تَھْتَدُوْنَ : ہدایت پاؤ
اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو احساناللہ کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہوگئے اس کے فضل سے بھائی، اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے نجات دی اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ۔
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا دوسرا اصول باہمی اتفاق
دوسری آیت واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ میں اس کو نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے وہ اصول اور گر بتلایا جو انسانوں کو باہمی مربوط اور متفق کرنے کا نسخہ اکسیر ہے، اس کے بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا، اس کے بعد آپس کے افتراق و انتشار سے منع فرمایا۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں، کسی مذہب و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں، دنیا میں شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کو بذاتہ مفید اور بہتر جانتا ہوں، اس لئے دنیا کی ہر جماعت، ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہیں، لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں، گروہوں، پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے، پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا ہے کہ صحیح معنی میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے، وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں، اغراض پوری ہوجائیں، یا ان میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آتی ہے۔
غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ و ہر فرقہ اور ہر شخص لوگوں کو اپنے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے، اور جبکہ دوسرے لوگ خود اپنا بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اس لئے لازمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا نتیجہ ایک ہی جماعتوں اور افراد کا افتراق و انتشار نکلتا ہے، اور اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس لئے قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلادیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے، کوئی عقلمند انسان اس سے اصولا انکار نہیں کرسکتا، اب اگر اختلاف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کے پہچاننے میں ہوسکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا ہے، یہودی نظام تورات کو، نصاری نظام انجیل کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواواجب التعمیل بتلاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتی ہیں۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور آبائی تقلید سے ذرا بلند ہو کر اپنی عقل خداداد سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہو کر اس کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیام قرآن کی صورت میں لائے ہیں، آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں، اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اور چونکہ خود حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے، اس لئے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف و تغییر کا بھی امکان نہیں، اس لئے سردست میں غیر مسلم جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے، اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختلافات ایک لحظہ میں ختم ہوسکتے ہین، جو انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر ہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے مضر بلکہ ایسا اختلاف رائے عقلاء کے درمیان رہنا فطری امر ہے، سو اس پر قابو پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں، بخلاف اس کے کہ قرآنی نظام سے آزاد ہو کر ہماری پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خلاف وجدال کا کوئی علاج نہیں رہتا، اور اسی اختلاف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہورہی ہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکسیر اس طرح بتلایا ہے
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ " یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو "
اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے، عبداللہ بن مسعود ؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایاکتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض۔ یعنی کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) زید بن ارقم کی روایت میں حبل اللہ ہوا القرآن کے الفاظ آئے ہیں۔ (ابن کثیر) محاورہ عربی میں حبل سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے، قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے، ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو، دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل کریں، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں، جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم وحد بن جاتی ہے، قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا ہےان الذین امنوا و عملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا (19: 96)۔ " یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں دوستی و محبت پیدا فرمادیتے ہیں "۔
پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط ریس کو پکڑ لیں، اور ہلاکت سے محفوظ رہیں، لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب ملکر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا، اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں۔
پوری مسلم قوم کا اتفاق صرف اسلام ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے نسبی اور وطنی وحدت سے یہ کام نہیں ہوسکتایہاں سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو، پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا، جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی، اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا، کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھتے جاتے، کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز اتحاد بنایا ہوا تھا کہ ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم، کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا، کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم، جیسے ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج وغیرہ۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت حبل اللہ قرآن کریم کو یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا، اور دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل اللہ سے وابستہ ہے، اور کافر دوسری قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں، خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (64: 3) کا یہی مطلب ہے، جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے، کیونکہ وہ وحدتیں عموما غیر اختیاری امور ہین، جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کرسکتا، جو کالا ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا، جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا، جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا، اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ میں ہوسکتی ہیں، ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا، اس لئے قرآن کریم نے مرکز وحدت حبل اللہ یعنی قرآن اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے، کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، گورا ہو یا کالا، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے، اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں، اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہو کر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں، اور اس کا اتباع کر کے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کر کے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرلے گا، یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرح آؤ، اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے، لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہوگئی، اب امت اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی، قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات درحقیقت امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے، اس لئے اعتصام بحبل اللہ کی وحدت اختیار کریں، جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔
الغرض اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں، دوسرے یہ کہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ اس نظام کو تھام لیں، تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولی میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔
مسلمانوں میں اتفاق کے ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا ولا تفرقوا باہم نااتفاقی نہ کرو، قرآن حکیم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرماتا ہے، چناچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایاوان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ (6: 154) اس آیت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین ہے، اور اپنی خواہشات کے زیر اثر خودساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت نااتفاقی کسی قوم کی ہلاکت کا سب سے پہلا اور آخری سبب ہے، اسی لئے قرآن حکیم نے بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔ (6: 16) " یعنی جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں "۔ علاوہ ازیں انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایا کہ کس طرح وہ امتیں باہمی اختلاف و شقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہو کر دنیا و آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا ہوچکی ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے، اور تین چیزوں کو ناپسند، پسندیدہ چیزیں یہ ہیں
اول یہ کہ تم عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو، اور نااتفاقی سے بچو۔ سوم یہ کہ اپنے حکام اور اولوا الامر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو۔
اور وہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں۔ (1) بےضرورت قیل و قال اور بحث و مباحثہ (2) بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا (3) اضاعت مال۔ (ابن کثیر عن ابی ہریرہ) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے، جواب یہ ہے کہ ہر اختلاف مذموم نہیں ہے، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے کہ جس میں اپنی اہواء اور خواہشات کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے، لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے، اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا، صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ و جدل اور سب و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے، باہمی اتحاد کے ان دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد اس حالت کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے، قبائل کی باہمی عداوتیں، بات بات پر ان کی لڑائیاں اور شب و روز کے کشت وخون کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی، اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ چناچہ فرمایا گیا۔ واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا۔ " یعنی اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی، سو تم اس کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، سو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا " یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر اللہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی برکت سے بھائی بھائی بنادیا، جس سے تمہارے دین و دنیا درست ہوگئے اور ایسی دوستی قائم ہوگئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوئے، اور یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔
واقعہ شان نزول میں شریر لوگوں نے جو اوس و خزرج کے قبیلوں کو پچھلی جنگ یاد دلا کر فساد برپا کرنا چاہا تھا آیت مذکور میں اس کا مکمل علاج ہوگیا، نتائج اور بذریعہ اسلام ان سے رہائی کا بیان فرمادیا۔
مسلمانوں کا باہمی اتحاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر موقوف ہے
قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا، وہ یہ کہ دلوں کا مالک درحقیقت اللہ جل شانہ ہے، دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے، کسی جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور موددت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، معصیت و نافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم و اتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنالیں، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے کہ کذلک یبین اللہ لکم ایتہ لعلکم تھتدون " یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لئے حقائق واضح کر کے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم لوگ صحیح راہ پر رہو۔
Top