Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 103
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا١۪ وَ اذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهٖۤ اِخْوَانًا١ۚ وَ كُنْتُمْ عَلٰى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْهَا١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ
وَاعْتَصِمُوْا
: اور مضبوطی سے پکڑ لو
بِحَبْلِ
: رسی کو
اللّٰهِ
: اللہ
جَمِيْعًا
: سب مل کر
وَّلَا
: اور نہ
تَفَرَّقُوْا
: آپس میں پھوٹ ڈالو
وَاذْكُرُوْا
: اور یاد کرو
نِعْمَتَ
: نعمت
اللّٰهِ
: اللہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِذْ كُنْتُمْ
: جب تم تھے
اَعْدَآءً
: دشمن (جمع)
فَاَلَّفَ
: تو الفت ڈال دی
بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ
: تمہارے دلوں میں
فَاَصْبَحْتُمْ
: تو تم ہوگئے
بِنِعۡمَتِهٖۤ
: اس کی نعمت سے
اِخْوَانًا
: بھائی بھائی
وَكُنْتُمْ
: اور تم تھے
عَلٰي
: پر
شَفَا
: کنارہ
حُفْرَةٍ
: گڑھا
مِّنَ
: سے (کے)
النَّارِ
: آگ
فَاَنْقَذَكُمْ
: تو تمہیں بچا لیا
مِّنْھَا
: اس سے
كَذٰلِكَ
: اسی طرح
يُبَيِّنُ
: واضح کرتا ہے
اللّٰهُ
: اللہ
لَكُمْ
: تمہارے لیے
اٰيٰتِھٖ
: اپنی آیات
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تَھْتَدُوْنَ
: ہدایت پاؤ
اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو احساناللہ کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہوگئے اس کے فضل سے بھائی، اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے نجات دی اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ۔
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا دوسرا اصول باہمی اتفاق
دوسری آیت واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ میں اس کو نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے وہ اصول اور گر بتلایا جو انسانوں کو باہمی مربوط اور متفق کرنے کا نسخہ اکسیر ہے، اس کے بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا، اس کے بعد آپس کے افتراق و انتشار سے منع فرمایا۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں، کسی مذہب و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں، دنیا میں شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کو بذاتہ مفید اور بہتر جانتا ہوں، اس لئے دنیا کی ہر جماعت، ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہیں، لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں، گروہوں، پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے، پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا ہے کہ صحیح معنی میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے، وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں، اغراض پوری ہوجائیں، یا ان میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آتی ہے۔
غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ و ہر فرقہ اور ہر شخص لوگوں کو اپنے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے، اور جبکہ دوسرے لوگ خود اپنا بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اس لئے لازمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا نتیجہ ایک ہی جماعتوں اور افراد کا افتراق و انتشار نکلتا ہے، اور اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس لئے قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلادیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں، البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے، کوئی عقلمند انسان اس سے اصولا انکار نہیں کرسکتا، اب اگر اختلاف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کے پہچاننے میں ہوسکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا ہے، یہودی نظام تورات کو، نصاری نظام انجیل کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواواجب التعمیل بتلاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتی ہیں۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور آبائی تقلید سے ذرا بلند ہو کر اپنی عقل خداداد سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہو کر اس کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم الانبیاء ﷺ جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیام قرآن کی صورت میں لائے ہیں، آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں، اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اور چونکہ خود حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے، اس لئے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف و تغییر کا بھی امکان نہیں، اس لئے سردست میں غیر مسلم جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے، اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختلافات ایک لحظہ میں ختم ہوسکتے ہین، جو انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر ہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے مضر بلکہ ایسا اختلاف رائے عقلاء کے درمیان رہنا فطری امر ہے، سو اس پر قابو پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں، بخلاف اس کے کہ قرآنی نظام سے آزاد ہو کر ہماری پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خلاف وجدال کا کوئی علاج نہیں رہتا، اور اسی اختلاف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے، اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہورہی ہے، قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکسیر اس طرح بتلایا ہے
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ " یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو "
اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے، عبداللہ بن مسعود ؓ راوی ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایاکتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض۔ یعنی کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔ (ابن کثیر) زید بن ارقم کی روایت میں حبل اللہ ہوا القرآن کے الفاظ آئے ہیں۔ (ابن کثیر) محاورہ عربی میں حبل سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے، قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے، ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو، دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل کریں، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں، جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم وحد بن جاتی ہے، قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا ہےان الذین امنوا و عملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا (19: 96)۔ " یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں دوستی و محبت پیدا فرمادیتے ہیں "۔
پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط ریس کو پکڑ لیں، اور ہلاکت سے محفوظ رہیں، لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب ملکر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا، اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں۔
پوری مسلم قوم کا اتفاق صرف اسلام ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے نسبی اور وطنی وحدت سے یہ کام نہیں ہوسکتایہاں سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو، پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا، جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی، اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا، کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھتے جاتے، کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز اتحاد بنایا ہوا تھا کہ ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم، کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا، کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم، جیسے ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج وغیرہ۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت حبل اللہ قرآن کریم کو یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا، اور دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل اللہ سے وابستہ ہے، اور کافر دوسری قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں، خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (64: 3) کا یہی مطلب ہے، جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے، کیونکہ وہ وحدتیں عموما غیر اختیاری امور ہین، جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کرسکتا، جو کالا ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا، جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا، جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا، اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ میں ہوسکتی ہیں، ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا، اس لئے قرآن کریم نے مرکز وحدت حبل اللہ یعنی قرآن اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے، کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، گورا ہو یا کالا، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے، اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہو کر بھائی بھائی بن سکتے ہیں، اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہو کر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں، اور اس کا اتباع کر کے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کر کے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرلے گا، یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرح آؤ، اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے، لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہوگئی، اب امت اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی، قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات درحقیقت امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے، اس لئے اعتصام بحبل اللہ کی وحدت اختیار کریں، جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئی خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔
الغرض اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں، دوسرے یہ کہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ اس نظام کو تھام لیں، تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولی میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔
مسلمانوں میں اتفاق کے ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا ولا تفرقوا باہم نااتفاقی نہ کرو، قرآن حکیم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرماتا ہے، چناچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایاوان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ (6: 154) اس آیت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین ہے، اور اپنی خواہشات کے زیر اثر خودساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت نااتفاقی کسی قوم کی ہلاکت کا سب سے پہلا اور آخری سبب ہے، اسی لئے قرآن حکیم نے بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔ (6: 16) " یعنی جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں "۔ علاوہ ازیں انبیاء (علیہم السلام) کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایا کہ کس طرح وہ امتیں باہمی اختلاف و شقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہو کر دنیا و آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا ہوچکی ہیں۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے، اور تین چیزوں کو ناپسند، پسندیدہ چیزیں یہ ہیں
اول یہ کہ تم عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو، اور نااتفاقی سے بچو۔ سوم یہ کہ اپنے حکام اور اولوا الامر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو۔
اور وہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں۔ (1) بےضرورت قیل و قال اور بحث و مباحثہ (2) بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا (3) اضاعت مال۔ (ابن کثیر عن ابی ہریرہ) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے، جواب یہ ہے کہ ہر اختلاف مذموم نہیں ہے، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے کہ جس میں اپنی اہواء اور خواہشات کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے، لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم ﷺ کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے، اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا، صحابہ وتابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ و جدل اور سب و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے، باہمی اتحاد کے ان دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد اس حالت کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے، قبائل کی باہمی عداوتیں، بات بات پر ان کی لڑائیاں اور شب و روز کے کشت وخون کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی، اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ چناچہ فرمایا گیا۔ واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا۔ " یعنی اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی، سو تم اس کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، سو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا " یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر اللہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم ﷺ کی برکت سے بھائی بھائی بنادیا، جس سے تمہارے دین و دنیا درست ہوگئے اور ایسی دوستی قائم ہوگئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوئے، اور یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔
واقعہ شان نزول میں شریر لوگوں نے جو اوس و خزرج کے قبیلوں کو پچھلی جنگ یاد دلا کر فساد برپا کرنا چاہا تھا آیت مذکور میں اس کا مکمل علاج ہوگیا، نتائج اور بذریعہ اسلام ان سے رہائی کا بیان فرمادیا۔
مسلمانوں کا باہمی اتحاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر موقوف ہے
قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا، وہ یہ کہ دلوں کا مالک درحقیقت اللہ جل شانہ ہے، دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے، کسی جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور موددت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے، معصیت و نافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم و اتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنالیں، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے کہ کذلک یبین اللہ لکم ایتہ لعلکم تھتدون " یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لئے حقائق واضح کر کے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم لوگ صحیح راہ پر رہو۔
Top