Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 125
بَلٰۤى١ۙ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا وَ یَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا یُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُسَوِّمِیْنَ
بَلٰٓى : کیوں نہیں اِنْ : اگر تَصْبِرُوْا : تم صبر کرو وَتَتَّقُوْا : اور پرہیزگاری کرو وَيَاْتُوْكُمْ : اور تم پر آئیں مِّنْ : سے فَوْرِھِمْ : فوراً ۔ وہ ھٰذَا : یہ يُمْدِدْكُمْ : مدد کرے گا تمہاری رَبُّكُمْ : تمہارا رب بِخَمْسَةِ : پانچ اٰلٰفٍ : ہزار مِّنَ : سے الْمَلٰٓئِكَةِ : فرشتے مُسَوِّمِيْنَ : نشان زدہ
البتہ اگر تم صبر کرو اور بچتے رہو اور وہ آئیں تم پر اسی دم تو مدد بھیجے تمہارا رب پانچ ہزار فرشتے نشان دار گھوڑوں پر
معارف و مسائل
فرشتوں کی امداد بھیجنے کی حکمت اور اصل مقصد اور تعداد ملائکہ میں مختلف عدد بیان کرنے کی حکمت
یہاں طبعی طور پر ایک سوال یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کو وہ طاقت بخشی ہے کہ ایک ہی فرشتہ پوری بستی کا تختہ الٹ سکتا ہے، جیسا کہ قوم لوط کی زمین تنہا جبرئیل امین نے الٹ دی تھی، تو پھر فرشتوں کا لشکر بھیجنے کی کیا ضرورت تھی۔ نیز یہ کہ جب فرشتے میدان میں آئے ہی تھے تو ایک کافر بھی بچنا نہیں چاہئے تھا اس کا جواب خود قرآن کریم نے آیت " وما جعلہ اللہ الا بشری " میں دیدیا، کہ فرشتوں کے بھیجنے میں در حقیقت ان سے کوئی میدان جنگ فتح کرانا مقصود نہ تھا، بلکہ مجاہدین مسلمین کی تسلی اور تقویت قلب اور بشارت فتح دینا مقصود تھا، جیسا کہ اس آیت کے الفاظ الا بشری اور لتطمئن قلوبکم سے واضح ہے، اور اس سے زیادہ صریح سورة انفال میں اسی واقعہ کے متعلق آئے ہوئے الفاظ ہیں فثبتوا الذین امنوا (8: 12) جس میں فرشتوں کو خطاب کر کے ان کے سپرد یہ خدمت کی گئی ہے کہ وہ مسلمانوں کے قلوب کو جمائے رکھیں، پریشان نہ ہونے دیں، اس تثبیت قلوب کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں، ایک یہ بھی ہے کہ اپنے تصرف کے ذریعہ ان کے قلوب کو مضبوط کردیں، جیسا کہ مشائخ صوفیہ اہل تصرف کو معمول ہے۔ اور یہ بھی ہوسکتی ہے کہ مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے یہ واضح کردیں کہ اللہ کے فرشتے ان کی مدد پر کھڑے ہیں، کبھی سامنے ظاہر ہوکر، کبھی آواز سے، کبھی کسی اور طریق سے، جیسا کہ میدان بدر میں یہ سب طریقے استعمال کئے گئے، فاضربوا فوق الاعناق (8: 12) کی ایک تفسیر میں یہ خطاب فرشتوں کو ہے، اور بعض روایات حدیث میں ہے کہ مسلمان نے کسی مشرک پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا تو اس کا سر خود ہی بدن سے جدا ہوگیا۔ (کما روی عن سہل بن حنیف بروایۃ الحاکم و تصیح اللبیہقی) اور بعض صحابہ کرام نے جبرئیل امین کی آواز بھی سنی کہ اقدم حیزوم فرما رہے ہیں، اور بعض نے خود بھی بعض ملائکہ کو دیکھا بھی (رواہ مسلم) یہ سب مشاہدات اسی سلسلہ کی کڑیاں ہیں، کہ ملائکہ اللہ نے مسلمانوں کو اپنی نصرت کا یقین دلانے کے لئے کچھ کچھ کام ایسے بھی کئے ہیں کہ گویا وہ بھی قتال میں شریک ہیں، اور دراصل ان کا کام مسلمانوں کی تسلی اور تقویت قلب تھا، فرشتوں کے ذریعہ میدان جنگ فتح کرانا مقصود نہیں تھا، اس کی واضح دلیل یہ بھی ہے کہ اس دنیا میں جنگ و جہاد کے فرائض انسانوں پر عائد کئے گئے ہیں، اور اسی وجہ سے ان کو فضائل و درجات حاصل ہوتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت یہ ہوتی کہ فرشتوں کے لشکر سے ملک فتح کرائے جائیں تو دنیا میں کفر و کافر کا نام ہی نہ رہتا، حکومت و سلطنت کی تو کیا گنجائش تھی، مگر اس کارخانہ قدرت میں اللہ تعالیٰ کی یہ مشیت ہی نہیں، یہاں تو کفر و ایمان اور اطاعت و معصیت ملے جلے ہی چلتے رہیں گے، ان کے نکھار کے لئے حشر کا دن ہے۔ رہا یہ معاملہ کہ غزوہ بدر میں ملائکہ اللہ کو مدد کے لئے بھیجنے میں جو وعدے آئے ہیں ان میں سورة انفال کی آیت میں تو ایک ہزار کا وعدہ ہے، اور آل عمران کی مذکورہ آیت میں پہلے تین ہزار کا پھر پانچ ہزار کا وعدہ ہے، اس میں کیا حکمت ہے ؟ بات یہ ہے کہ سورة انفال میں مذکور یہ ہے کہ جب میدان بدر میں مسلمانوں نے مخالف کی تعداد ایک ہزار دیکھی اور ان کی تعداد تین سو تیرہ تھی تو بارگاہ رب العزت میں استغاثہ کیا، اس پر یہ وعدہ ایک ہزار فرشتوں کی امداد کا کیا گیا، کہ جو عدد تمہارے دشمن کا ہے اتنا ہی عدد فرشتوں کا بھیج دیا جائے گا، آیت کے الفاظ یہ ہیںاذ تستغیثون ربکم فاستجاب لکم انی ممدکم بالف من الملئکۃ مردفین۔ (8: 9) اور اس آیت کے بعد بھی فرشتوں کی مدد بھیجنے کا یہی مقصد ظاہر فرما دیا کہ مسلمانوں کے قلوب جمے رہیں اور ان کو فتح کی بشارت ملے۔ چناچہ اس کے بعد کی آیت کے الفاظ یہ ہیںوما جعلہ اللہ الا بشری ولتطمئن بہ قلوبکم۔ اور سورة آل عمران کی آیت زیر نظر میں تین ہزار فرشتوں کا وعدہ شاید اس بناء پر کیا گیا کہ بدر کے میدان میں مسلمانوں کو یہ خبر ملی کہ زبن جابر محاربی اپنے قبیلہ کا لشکر لے کر مشرکین مکہ کی امداد کو آرہا ہے (کذا فی الروح) یہاں دشمن کی تعداد مسلمانوں سے تین گناہ زیادہ پہلے ہی سے تھی، مسلمان اس خبر سے کچھ پریشان ہوئے تو تین ہزار فرشتوں کا وعدہ کیا گیا تاکہ معاملہ برعکس ہو کر مسلمانوں کی تعداد دشمن سے تین گنا ہوجائے گی۔ پھر اسی آیت کے آخر میں اس تعداد کو چند شرطوں کے ساتھ بڑھا کر پانچ ہزار کردیا وہ شرطیں دو تھیں۔ ایک یہ کہ مسلمان صبر وتقوی کے مقام اعلی پر قائم رہیں، دوسرے یہ کہ دشمن ان پر یکبارگی حملہ کردے، مگر ان دو شرطوں میں سے دوسری شرط یکبارگی حملہ کی واقع نہیں ہوئی، اس لئے پانچ ہزار کی تعداد کا وعدہ نہ رہا، پھر اس میں ائمہ تفسیر و تاریخ کے اقوال مختلف ہیں، کہ اگرچہ وعدہ کی یہ شرط متحقق نہیں ہوئی، پھر بھی یہ وعدہ پانچ ہزار کی صورت میں پورا ہوا یا صرف تین ہزار کی صورت میں، یہ اقوال مختلفہ روح المعانی میں مذکور ہیں۔
Top