Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 156
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِهِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ كَانُوْا غُزًّى لَّوْ كَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْا١ۚ لِیَجْعَلَ اللّٰهُ ذٰلِكَ حَسْرَةً فِیْ قُلُوْبِهِمْ١ؕ وَ اللّٰهُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ١ؕ وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : نہ ہوجاؤ كَا : طرح لَّذِيْنَ كَفَرُوْا : جو کافر ہوئے وَقَالُوْا : وہ کہتے ہیں لِاِخْوَانِھِمْ : اپنے بھائیوں کو اِذَا : جب ضَرَبُوْا فِي الْاَرْضِ : وہ سفر کریں زمین (راہ) میں اَوْ : یا كَانُوْا غُزًّى : جہاد میں ہوں لَّوْ كَانُوْا : اگر وہ ہوتے عِنْدَنَا : ہمارے پاس مَا : نہ مَاتُوْا : وہ مرتے وَمَا قُتِلُوْا : اور نہ مارے جاتے لِيَجْعَلَ : تاکہ بنادے اللّٰهُ : اللہ ذٰلِكَ : یہ۔ اس حَسْرَةً : حسرت فِيْ : میں قُلُوْبِھِمْ : ان کے دل وَاللّٰهُ : اور اللہ يُحْيٖ : زندہ کرتا ہے وَيُمِيْتُ : اور مارتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ بِمَا : جو کچھ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو بَصِيْرٌ : دیکھنے والا
اے ایمان والوں تم نہ ہو ان کی طرح جو کافر ہوئے اور کہتے ہیں اپنے بھائیوں کو جب وہ سفر کو نکلیں ملک میں یا ہوں جہاد میں اگر رہتے ہمارے پاس تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے تاکہ اللہ ڈالے اس گمان سے افسوس ان کے دلو میں اللہ ہی جلاتا اور مارتا ہے اور اللہ تمہارے سب کام دیکھتا ہے
زبط آیات
پچھلی آیتوں میں منافقین کا یہ قول بیان کیا گیا تھا کہ لوکان لنا من الامر شیء ما قتلناھما، یعنی اگر ہمارا کچھ اختیار ہوتا اور ہماری رائے مانی جاتی تو ہم یہاں قتل نہ ہوتے جس کو آگے بھی نقل کیا گیا ہے، ایسے اقوال کے سننے سے یہ احتمال تھا کہ مخلص مسلمانوں کے دلوں میں کچھ شک و شبہات نہ پیدا ہوجائیں، اس لئے مذکورہ بالا آیات میں مسلمانوں کو ایسے اقوال و احوال سے پرہیز کرنے کی اور موت وحیات کو صرف تابع تقدیر ہونے کی ہدایت دی گئی ہے۔
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح مت ہوجانا جو (حقیقت میں) کافر ہیں (گو ظاہراً اسلام کا دعویٰ کرتے ہوں) اور کہتے ہیں اپنے (ہم نسب یا ہم مشرک) بھائیوں کی نسبت جبکہ وہ لوگ کسی سر زمین میں سفر کرتے ہیں (اور وہاں اتفاقاً مر جاتے ہیں) یا وہ لوگ کہیں غازی بنتے ہیں (اور اس میں تقدیر سے قتل ہوجاتے ہیں تو وہ منافق کہتے ہیں) کہ اگر یہ لوگ ہمارے پاس رہتے (سفر اور غزوہ میں نہ جاتے) تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے (یہ بات انکے دل اور زبان پر اس لئے آتی ہے) تاکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو ان کے قلوب کے لئے موجب حسرت کردیں (یعنی نتیجہ اس طرح کی باتوں میں حسرت کے سوا کچھ نہیں) اور مارتا چلاتا تو اللہ ہی ہے (خواہ سفر یا حضر اور جنگ ہو یا امن) اور اللہ تعالیٰ جو کچھ تم کرتے ہو سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ (تو اگر تم بھی ایسی باتیں کرو یا ایسے خیالات میں مبتلا ہو تو وہ اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ رہے گا) اور اگر تم لوگ اللہ کی راہ میں مارے جاؤ یا کہ (اللہ کی راہ میں) مر جاؤ (تو یہ کوئی) خسارہ نہیں نفع ہی نفع ہے کیونکہ بالضرور اللہ تعالیٰ کے پاس مغفرت اور رحمت و دنیا کی، ان چیزوں سے بدر جہا بہتر ہے جن کو یہ لوگ جمع کر رہے ہیں (اور اسی کے لالچ میں زندگی کو محبوب رکھتے ہیں اور) اگر تم (ویسے بھی) مر گئے یا مارے گئے (تب بھی) بالضرور اللہ ہی کے پاس جمع کئے جاؤ گے (پس اول تو قضا ٹلتی نہیں اور دوسرے اللہ کے پاس جانے سے کسی حال بچ نہیں سکتے اور دنیا کی راہ میں فرمایا مارا جانا تو موجب مغفرت و رحمت ہے تو پھر ویسے مرنے سے دین ہی کی راہ میں جان دینا بہتر ہے اس لئے ایسے اقوال دنیا میں موجب حسرت اور آخرت میں موجب نار جہنم ہے ان سے پرہیز لازم ہے۔)
Top