Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 164
لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ١ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ
لَقَدْ : البتہ بیشک مَنَّ : احسان کیا اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر الْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے (مومن) اِذْ بَعَثَ : جب بھیجا فِيْھِمْ : ان میں رَسُوْلًا : ایک رسول مِّنْ : سے اَنْفُسِھِمْ : ان کی جانیں (ان کے درمیان يَتْلُوْا : وہ پڑھتا ہے عَلَيْھِمْ : ان پر اٰيٰتِھٖ : اس کی آیتیں وَيُزَكِّيْھِمْ : اور انہیں پاک کرتا ہے وَيُعَلِّمُھُمُ : اور انہیں سکھاتا ہے الْكِتٰبَ : کتاب وَالْحِكْمَةَ : اور حکمت وَاِنْ : اور بیشک كَانُوْا : وہ تھے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل لَفِيْ : البتہ۔ میں ضَلٰلٍ : گمراہی مُّبِيْنٍ : کھلی
اللہ نے احسان کیا ایمان والوں پر جو بھیجا ان میں رسول انہی میں کہ پڑھتا ہے ان پر آیتیں اس کی اور پاک کرتا ہے انکو یعنی شرک وغیرہ سے اور سکھلاتا ہے ان کو کتاب اور کام کی بات اور وہ تو پہلے سے صریح گمراہی میں تھے
رسول کریم ﷺ کا وجود باجود پوری انسانیت پر سب سے بڑا احسان ہے
آیت لقد من اللہ علی المومنین الآیتہ اسی مضمون کی ایک آیت 129 تقریباً انہی الفاظ کے ساتھ سورة بقرہ میں گذر چکی ہے جس کی تفسیر و تشریح تفصیل کے ساتھ معارف القرآن جلد اول صفحہ 329 میں آ چکی ہے، اس کو دیکھ لیا جائے یہاں آیت میں ایک لفظ زائد ہے، لقد من اللہ علی المومنین، یعنی رسول اللہ ﷺ کو دنیا میں مبعوث فرما کر حق تعالیٰ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ اس کے متعلق پہلی بات تو یہ قابل غور ہے کہ قرآن کریم کی تصریح کے مطابق آنحضرت ﷺ رحمتہ للعالمین ہیں اور پورے عالم کے لئے آپ کا وجود نعمت کبری اور احسان عظیم ہے، اس جگہ اس کو صرف مؤمنین کے لئے فرمانا ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم کو ھدی للمتقین فرمانا کہ قرآن کا سارے عالم کے لئے ہدایت ہونا دوسری آیات سے ثابت ہے مگر بعض جگہ اس کو متقین کے ساتھ مخصوص کر کے بیان فرمایا اس کی وجہ دونوں جگہ مشترک طور پر ایک ہی ہے کہ اگرچہ رسول اللہ ﷺ کا وجود باوجود سارے عالم اور ہر مومن و کافر کے لئے نعمت کبریٰ اور احسان عظیم ہے اسی طرح قرآن کریم سارے عالم انسانیت کے لئے صحیفہ ہدایت ہے، مگر چونکہ اس نعمت و ہدایت کا نفع صرف مؤمنین اور متقین نے حاصل کیا اس لئے کسی جگہ اس کو ان کے ساتھ مخصوص کر کے بھی بیان کردیا گیا۔
دوسری بات رسول کریم ﷺ کو مؤمنین کے لئے یا پورے عالم کے لئے نعمت کبری اور احسان عظیم ہونے کی تشریح و توضیح ہے۔
یہ بات ایسی ہے کہ اگر آج کل کا انسان روحانیت فراموش اور مادیت کا پرستار نہ ہوتا تو یہ مضمون کسی توضیح و تشریح کا محتاج نہیں تھا، عقل سے کام لینے والا ہر انسان اس احسان عظیم کی حقیقت سے خود واقف ہوتا، مگر ہو یہ رہا ہے کہ آج کا انسان دنیا کے جانوروں میں ہوشیا رترین جانور سے زیادہ کچھ نہیں رہا اس کو احسان و انعام صرف وہ چیز نظر آتی ہے جو اس کے پیٹ اور نفسانی خواہشات کا سامان مہیا کرے، اس کے وجود کی اصل حقیقت جو اس کی روح ہے اس کی خوبی اور خرابی سے وہ یکسر غافل ہوگیا ہے، اس لئے اس تشریح کی ضرورت ہوئی کہ انسان کو پہلے تو یہ بتلایا جائے کہ اس کی حقیت صرف چند ہڈیوں اور گوشت پوست کا مجموعہ نہیں، بلکہ حقیقت انسان وہ روح ہے جو اس کے بدن کے ساتھ متعلق ہے، جب تک یہ روح اس کے بدن میں ہے اس وقت تک انسان انسان ہے، اس کے حقوق انسانیت قائم ہیں، خواہ وہ کتنا ہی ضعیف و کمزور، لب دم کیوں نہ ہو، کسی کی مجال نہیں کہ اس کی جائیداد اور اموال پر قبضہ کرسکے، یا اس کے حقوق سلب کرسکے، لیکن جس وقت یہ روح اس کے بدن سے الگ ہوگئی، تو خواہ وہ کتنا ہی قوی اور پہلوان ہو اور اس کے اعضاء سب اپنی اصلی ہئیت میں ہوں وہ انسان نہیں رہا، اس کا کوئی حق خود اپنی جائیداد و اموال میں باقی نہیں رہا۔
انبیاء (علیہم السلام) دنیا میں آتے ہیں اس لئے کہ وہ انسانی روح کی صحیح تربیت کر کے انسان کو حقیقی انسان بنائیں، تاکہ اس کے بدن سے جو اعمال و افعال صادر ہوں وہ انسانیت کے لئے مفید ثابت ہوں، وہ درندے اور زہریلے جانوروں کی طرح دوسرے انسانوں کو ایذاء اور تکلیف دیتا نہ پھرے اور خود اپنے بھی انجام کو سمجھ کر آخرت کی دائمی زندگی کا سامان مہیا کرے، ہمارے رسول کریم ﷺ کو جیسے زمرہ انبیاء میں امامت و سیادت کا منصب حاصل ہے، انسان کو صحیح انسان بنانے میں بھی آپ کی شان تمام انبیاء (علیہم السلام) سے بہت ممتاز ہے، آپ نے اپنی مکی زندگی میں صرف یہی کام افراد سازی کا انجام دیا اور انسانوں کا ایسا معاشرہ تیار کردیا جس کا مقام فرشتوں کی صفوف سے آگے ہے اور زمین و آسمان نے اس سے پہلے ایسے انسان نہیں دیکھے، ان میں سے ایک ایک رسول اللہ ﷺ کا زندہ معجزہ نظر آتا ہے، ان کے بعد کے لئے بھی آپ نے جو تعلیمات اور ان کے رواج دینے کے طریقے چھوڑے ہیں اس پر پورا عمل کرنے والے اسی مقام کو پاسکتے ہیں جو صحابہ کرام نے پایا ہے، یہ تعلیمات سارے عالم کے لئے ہیں، اس لئے آپ کا وجود باجود پورے عالم انسان کے لئے احسان عظیم ہے، گو اس سے پورا نفع مؤمنین ہی نے اٹھایا ہے۔
Top