Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 173
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًا١ۖۗ وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰهُ وَ نِعْمَ الْوَكِیْلُ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو قَالَ : کہا لَھُمُ : ان کے لیے النَّاسُ : لوگ اِنَّ : کہ النَّاسَ : لوگ قَدْ جَمَعُوْا : جمع کیا ہے لَكُمْ : تمہارے لیے فَاخْشَوْھُمْ : پس ان سے ڈرو فَزَادَھُمْ : تو زیادہ ہوا ان کا اِيْمَانًا : ایمان وَّقَالُوْا : اور انہوں نے کہا حَسْبُنَا : ہمارے لیے کافی اللّٰهُ : اللہ وَنِعْمَ : اور کیسا اچھا الْوَكِيْلُ : کارساز
جن کو کہا لوگوں نے کہ مکہ والے آدمیوں نے جمع کیا ہے سامان تمہارے مقابلہ کو سو تم ان سے ڈرو تو اور زیادہ ہوا ان کا ایمان اور بولے کافی ہے ہم کو اللہ اور کیا خوب کارساز ہے،
دوسری آیت میں اس جہاد کے لئے بڑھنے والے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مزید توصیف و تعریف اس طرح کی گئی۔
الذین قال لھم الناس ان الناس قد جمعوا لکم فاخشوھم فزادھم ایماناً یعنی یہ وہ حضرات ہیں کہ جب ان لوگوں نے کہا کہ تمہارے خلاف دشمنوں نے بڑا سامان اکٹھا کیا ہے ان سے ڈرو جنگ کا ارادہ نہ کرو تو اس خبر نے ان کا جوش ایمان اور بڑھا دیا درجہ یہ ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت جب ان حضرات نے قبول کی تھی تو پہلے ہی دن سے محسوس کرلیا تھا کہ ہم نے جس راستہ پر سفر شروع کیا ہے وہ خطرات سے پر ہے، قدم قدم پر مشکلات و موانع پیش آئیں گے، ہمارا راستہ روکا جائے گا اور ہماری انقلابی تحریک کو مٹانے کے لئے مسلح کوششیں کی جائیں گی اس لئے جب یہ حضرات اس قسم کی مشکلات کو دیکھتے تھے تو ایمان کی قوت پہلے سے زیادہ ہوجاتی تھی اور پہلے سے زیادہ جانفشانی اور فداکاری کے ساتھ کام کرنے لگتے تھے۔ ظاہر یہ ہے کہ ان حضرات کا ایمان تو اسلام لانے کے اول روز ہی سے کامل تھا، لہٰذا ان دونوں آیتوں میں ایمان کی زیادتی سے ایمان کی صفات اور ایمان کے ثمرات کی زیادتی مراد ہے اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی دعوت پر تیار ہوجانے والے صحابہ کی اس حالت کو بھی اس جگہ خصوصیت کے ساتھ بیان کیا کہ اس جہاد کے سفر میں تمام راستہ یہ جملہ ان کے ورد زبان رہا حسبنا اللہ و نعم الوکیل اس جملہ کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے لئے کافی ہے اور وہی بہتر کار ساز ہے
یہاں یہ بات خصوصیت سے قابل غور ہے کہ رسول کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام سے زیاد ہوتا دنیا میں کسی کا توکل و اعتماد اللہ تعالیٰ پر نہیں ہو سکتا، لیکن آپ کی صورت توکل یہ نہ تھی، کہ اسباب ظاہرہ کو چھوڑ کر بیٹھے رہتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کافی ہے وہ بیٹھے بیٹھائے ہمیں غلبہ عطا فرما دے گا، نہیں بلکہ آپ نے صحابہ کرام کو جمع کیا، زخم خوردہ لوگوں کے دلوں میں نئی روح پیدا فرمائی، جہاد کے لئے تیار کیا اور نکل کھڑے ہوئے جتنے اسباب و ذرائع اپنے اختیار میں تھے وہ سب مہیا اور استعمال کرنے کے بعد فرمایا کہ ہمیں اللہ کافی ہے، یہی وہ صحیح توکل ہے جس کی تعلیم قرآن میں دی گئی اور رسول کریم ﷺ نے اس پر عمل کیا اور کرایا، اسباب ظاہرہ دنیویہ بھی اللہ تعالیٰ کا انعام ہیں، ان کو ترک کردینا اس کی ناشکری ہے، ترک اسباب کر کے توکل کرنا سنت رسول اللہ ﷺ نہیں ہے، کوئی مغلوب الحال ہو تو وہ معذور سمجھا جاسکتا ہے، ورنہ صحیح بات یہی ہے کہ برتوکل زانوے اشتر بہ بند
رسول کریم ﷺ نے خود ایک واقعہ میں اسی آیت حسبنا اللہ و نعم الوکیل کے بارے میں واضح طور پر ارشاد فرمایا ہے
عوف بن مالک فرماتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کی خدمت میں دو شخصوں کا مقدمہ آیا آپ نے ان کے درمیان فیصلہ فرمایا، یہ فیصلہ جس شخص کے خلاف تھا اس نے فیصلہ نہایت سکون سے سنا اور یہ کہتے ہوئے چلنے لگا کہ حسبی اللہ ونعم الوکیل حضور ﷺ نے فرمایا اس شخص کو میرے پاس لاؤ اور فرمایا
”یعنی اللہ تعالیٰ ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانے کو ناپسند کرتا ہے بلکہ تم کو چاہئے کہ تمام ذرائع اختیار کرو پھر بھی عاجز ہوجاؤ اس وقت کہو حسبی اللہ و نعم الوکیل۔“
Top