Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 174
فَانْقَلَبُوْا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ فَضْلٍ لَّمْ یَمْسَسْهُمْ سُوْٓءٌ١ۙ وَّ اتَّبَعُوْا رِضْوَانَ اللّٰهِ١ؕ وَ اللّٰهُ ذُوْ فَضْلٍ عَظِیْمٍ
فَانْقَلَبُوْا : پھر وہ لوٹے بِنِعْمَةٍ : نعمت کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَفَضْلٍ : اور فضل لَّمْ يَمْسَسْھُمْ : انہیں نہیں پہنچی سُوْٓءٌ : کوئی برائی وَّاتَّبَعُوْا : اور انہوں نے پیروی کی رِضْوَانَ : رضا اللّٰهِ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ ذُوْ فَضْلٍ : فضل والا عَظِيْمٍ : بڑا
پھر چلے آئے مسلمان اللہ کے احسان اور فضل کے ساتھ کچھ نہ پہنچی ان کو برائی اور تابع ہوئے اللہ کی مرضی کے اور اللہ کا فضل بڑا ہے
تیسری آیت میں ان حضرات صحابہ کے اقدام جہاد اور حسبنا اللہ و نعم الوکیل کہنے کے فوائد وثمرات اور برکات کا بیان ہے، فرمایا ہے
فانقلبوا بنعمة من اللہ و فضل لم یمسھم سوء واتبعوا رضوان اللہ یعنی یہ لوگ اللہ کے انعام اور فضل کے ساتھ واپس آئے کہ انہیں کوئی ناگواری ذرا نہ پیش آئی اور یہ لوگ رضائے الٰہی کے تابع رہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان حضرات کو تین نعمتیں عطا کیں، پہلی نعمت تو یہ کہ کافروں کے قلوب میں رعب وہیبت ڈال دی اور وہ لوگ بھاگ گئے جس کی وجہ سے یہ حضرات قتل و قتال سے محفوظ رہے، اس نعمت کو اللہ تعالیٰ نے نعمت ہی کے لفظ سے تعبیر فرمایا اور دوسری نعمت اللہ تعالیٰ نے یہ عطا فرمائی کہ ان حضرات کو حمراء الاسد کے بازار میں تجارت کا موقع ملا اور اس مال سے منافع حاصل ہوا اس کو لفظ فضل سے تعبیر فرمایا ہے۔
تیسری نعمت جو ان تمام نعمتوں سے بڑھ کر ہے وہ رضائے الٰہی کا حصول ہے جو اس جہاد میں ان حضرات کو خاص انداز میں حاصل ہوئی۔ حسبنا اللہ و نعم الوکیل کے جو فوائد و برکات قرآن کریم نے بیان فرمائے وہ کچھ صحابہ کرام کے ساتھ مخصوص نہ تھے، بلکہ جو شخص بھی جذبہ ایمانی کے ساتھ اس کا ورد کرے وہ یہ برکات حاصل کرے گا۔
مشائخ و علماء نے حسبنا اللہ و نعم الوکیل پڑھنے کے فوائد میں لکھا ہے کہ اس آیت کو ایک ہزار مرتبہ جذبہ ایمان وانقیاد کے ساتھ پڑھا جائے اور دعا مانگی جائے تو اللہ تعالیٰ رد نہیں فرماتا۔ ہجوم افکار و مصائب کے وقت حسبنا اللہ ونعم الوکیل کا پڑھنا مجرب ہے۔
چوتھی آیت میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو مرعوب کرنے کے لئے مشرکین کے دوبارہ لوٹنے کی خبر دینے والا اصل میں شیطان ہے، جو تم کو اپنے اولیاء یعنی ہم مذہب کفار سے ڈرانا چاہتا ہے، تو گویا اصل عبارت میں یخوف کا ایک مفعول محذوف ہے، یعنی یخوفکم اور دوسرا مفعول اولیآء ہو مذکور ہے۔
پھر ارشاد فرمایا کہ مسلمانوں کو ایسی خبروں سے ہرگز ڈرنا نہیں چاہئے، البتہ مجھ سے ڈرتے رہنا ضروری ہے، یعنی میری اطاعت کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے ہر مومن کو ڈرانا ضروری ہے، اللہ تعالیٰ کی مدد ساتھ ہو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔
خوف خدا سے مراد کیا ہے۔
اس آیت میں حق تعالیٰ نے مسلمانوں پر فرض کیا ہے کہ وہ اللہ سے ڈرتے رہیں اور دوسری آیت میں ان لوگوں کی مدح فرمائی ہے جو اللہ سے ڈرتے ہیں، یخافون ربھم من فوقھم (61: 05) مگر بعض اکابر نے فرمایا کہ خوف خدا رونے اور آنسو پونچھنے کا نام نہیں، بلکہ اللہ سے ڈرنے والا وہ ہے جو ہر اس چیز کو چھوڑ دے جس پر اللہ کی طرف سے عذاب کا خطرہ ہو۔
ابو علی دقاق رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر بن فواک بیمار تھے، میں ان کی عیادت کر گیا، مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے، میں نے کہا کہ گھبرایئے نہیں، اللہ تعالیٰ آپ کو شفاء و عافیت دیں گے، وہ فرمانے لگے کہ کیا تم یہ سمجھے کہ میں موت کے خوف سے روتا ہوں، بات یہ نہیں، مجھے مابعد الموت کا خوف ہے کہ وہاں کوئی عذاب نہ ہو (قرطبی)
Top