Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 191
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰى جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
الَّذِيْنَ
: جو لوگ
يَذْكُرُوْنَ
: یاد کرتے ہیں
اللّٰهَ
: اللہ
قِيٰمًا
: کھڑے
وَّقُعُوْدًا
: اور بیٹھے
وَّعَلٰي
: اور پر
جُنُوْبِھِمْ
: اپنی کروٹیں
وَيَتَفَكَّرُوْنَ
: اور وہ غور کرتے ہیں
فِيْ خَلْقِ
: پیدائش میں
السَّمٰوٰتِ
: آسمانوں
وَالْاَرْضِ
: اور زمین
رَبَّنَا
: اے ہمارے رب
مَا
: نہیں
خَلَقْتَ
: تونے پیدا کیا
هٰذَا
: یہ
بَاطِلًا
: بےفائدہ
سُبْحٰنَكَ
: تو پاک ہے
فَقِنَا
: تو ہمیں بچا لے
عَذَابَ
: عذاب
النَّارِ
: آگ (دوزخ)
وہ جو یاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور فکر کرتے ہیں آسمان اور زمین کی پیدائش میں کہتے ہیں اے رب ہمارے تو نہ بہ عبث نہیں بنایا تو پاک ہے سب عیبوں سے سو ہم کو بچا دوزخ کے عذاب سے
الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعودا و علی جنوبھم یعنی عقل والے وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو یاد کریں کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے ہوئے مراد یہ ہے کہ ہر حالت اور ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ آج کی دنیا نے جس چیز کو عقل اور عقلمندی کا معیار سمجھ لیا ہے وہ محض ایک دھوکا ہے، کسی نے مال و دولت سمیٹ لینے کو عقلمندی قرار دیدیا، کسی نے مشینوں کے کل پرزے بنانے یا برق اور بھاپ کو اصلی پاور سمجھ لینے کا نام عقلمندی رکھ دیا لیکن عقل سلیم کی بات وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے انبیاء و رسل لے کر آئے کہ علم و حکمت کے ذریعہ سلسلہ اسباب میں ادنی سے اعلی کی طرف ترقی کرتے ہوئے درمیانی مراحل کو نظر انداز کیا، خام مودا سے مشینوں تک اور مشینوں سے برق اور بھاپ کی قوت تک تمہیں سائنس نے پہونچایا عقل کا کام یہ ہے کہ ایک قدم اور آگے بڑھو تاکہ تمہیں یہ معلوم ہو کہ اصل کام نہ پانی مٹی یا لوہے، تانبے کا ہے، نہ مشین کا، نہ اس کے ذریعہ پیدا کی ہوئی اسٹیم کا، بلکہ کام اس کا ہے جس نے آگ اور پانی اور ہوا پیدا کی، جس کے ذریعہ یہ برق و بھاپ تمہارے ہاتھ آئی۔
کار زلف تست مشک افشانی اما عاشقاں
مصلحت راتہمتے برآ ہوئے چین بستہ اند
اس کو ایک عامیانہ محسوس مثال سے یوں سمجھئے کہ ایک جنگل کا رہنے والا جاھل انسان جب کسی ریلوے اسٹیشن پر پہنچنے اور یہ دیکھے کہ ریل جیسی عظیم الشان سواری ایک سرخ جھنڈی کے دکھانے سے رک جاتی ہے اور سبز کے دکھانے سے چلنے لگتی ہے تو اگر وہ یہ کہے کہ یہ سرخ اور سبز جھنڈی بڑے پاور اور طاقت کی مالک ہے کہ اتنی طاقت والے انجن کو روک دیتی اور چلا دیتی ہے، تو علم و عقل والے اس کو احمق کہیں گے اور بتلائیں گے کہ طاقت ان جھنڈیوں میں نہیں بلکہ اس شخص کے پاس ہے جو انجن میں بیٹھا ہوا ان جھنڈیوں کو دیکھ کر روکے یا چلانے کا کام کرتا ہے، لیکن جس کی عقلی کچھ اس سے زیادہ ہے وہ کہے گا کہ انجن درائیور کو پاور یا طاقت کا مالک سمجھنا بھی غلطی ہے، کیونکہ درحقیقت اس کی طاقت کو اس میں کوئی دخل نہیں، وہ ایک قدم اور بڑھ کر اس طاقت کو انجن کے کل پرزوں کی طرف منسوب کرے گا، لیکن ایک فلاسفر یا سائنس داں اس کو بھی یہ کہہ کر بیوقوف بتلائے گا کہ بےحس کل پرزوں میں کیا رکھا ہے، اصل طاقت اس بھاپ اور اسٹیم کی ہے، جو انجن کے اندر آگ اور پانی کے ذریعہ پیدا کی گی ہے، لیکن حکمت و فلسفہ یہاں آ کر تھک جاتا ہے، انبیاء (علیہم السلام) فرماتے ہیں کہ ظالم ! جس طرح جھنڈیوں کو یا ڈرائیور کو یا انجن کے کل پرزوں کو طاقت اور پاور کا مالک سمجھ بیٹھنا اس جاہل کی غلطی تھی، اسی طرح بھاپ اور اسٹیم کو طاقت کا مالک سمجھ لینا بھی تیری فلسفیانہ غلطی ہے، ایک قدم اور آگے بڑھ، تاکہ تجھے اس الجھی ہوئی ڈور کا سرا ہاتھ آئے اور سلسلہ اسباب کی آخری کڑی تک تیری رسائی ہوجائے کہ دراصل ان ساری طاقتوں اور پاوروں کا مالک وہ ہے جس نے آگ اور پانی پیدا کئے اور یہ اسٹیم تیار ہوئی۔
اس تفصیل سے آپ نے معلوم کرلیا کہ عقل والے کہلانے کے مستحق صرف وہی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور ہر وقت ہر حالت میں اس کو یاد کریں، اسی لیے اولی الالباب کی صفت قرآن کریم نے یہ بتلائی الذین یذکرون اللہ قیاماً و قعودا وعلے جنوبھم
اس لئے حضرات فقہا کرام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی انتقال سے قبل یہ وصیت کر جائے کہ میرا مال عقلاء کو دے دیا جائے، تو کس کو دیا جائے گا ؟ اس کے جواب میں حضرات فقہاء کرام نے تحریر فرمایا کہ ایسے عالم زاہد اس مال کے مستحق ہوں گے جو دنیا طلب اور غیر ضروری مادی وسائل سے دور ہیں، کیونکہ صحیح معنی میں وہی عقلاء ہیں (در مختار، کتاب الوصیتہ)
اس جگہ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ شریعت میں ذکر کے علاوہ کسی اور عبادت کی کثرت کا حکم نہیں دیا گیا، لیکن ذکر کے متعلق ارشاد ہے کہ اذکروا اللہ ذکراً کثیرا (33: 14) وجہ اس کی یہ ہے کہ ذکر کے سوا سب عبادات کے لئے کچھ شرائط اور قواعد ہیں جن کے بغیر وہ عبادات ادا نہیں ہوتیں، بخلاف ذکر کے کہ اس کو انسان کھڑے، بیٹھے، لیٹے ہوئے، باوضو ہو یا بےوضو ہر حالت میں اور ہر وقت انجام دے سکتا ہے، اس آیت میں شاید اسی حکمت کی طرف اشارہ ہے۔
آیت مذکورہ میں عقل والوں کی دوسری علامت یہ بتلائی گی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی تخلیق و پیدائش میں تفکر کرتے ہیںیتفکرون فی خلق السموت والارض، الایتہ یہاں غور طلب یہ امر ہے کہ اس تفکر سے کیا مراد ہے اور اس کا کیا درجہ ہے ؟
فکر اور تفکر کے لفظی معنی غور کرنے اور کس چیز کی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنے کے ہیں، اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کا ذکر عبادت ہے اسی طرح فکر بھی ایک عبادت ہے، فرق یہ ہے کہ ذکر اللہ جل شانہ کی ذات وصفات کا مطلوب ہے اور فکر و تفکر اس کی مخلوقات میں مقصود ہے، کیونکہ ذات وصفات الہیہ کی حقیقت کا ادراک انسان کی عقل سے بالاتر ہے، اس میں غور و فکر اور تدبر و تفکر بجز حیرانی کے کوئی نتیجہ نہیں رکھتا، عارف رومی نے فرمایا۔
دور بینان بارگاہ الست
غیر ازیں پے نبردہ اندکہ ہست
بلکہ بعض اوقات حق جل شانہ کی ذات وصفات میں زیادہ غور و فکر انسان کی ناقص عقل کے لئے گمراہی کا سبب بن جاتا ہے، اس لئے اکابر اہل معرفت کی وصیت ہے کہ تفکروا فی آیت اللہ ولاتتفکروا فی اللہ،”یعنی اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی نشانیوں میں غور و فکر کرو مگر خود اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات میں غور و فکر نہ کرو، کہ وہ تمہاری رسائی سے بالاتر ہے، آفتاب کی روشنی میں ہر چیز کو دیکھا جاسکتا ہے، مگر خود آفتاب کو کوئی دیکھنا چاہے تو آنکھیں خیر ہوجاتی ہیں، ذات وصفات کے مسئلہ میں تو بڑے بڑے ماہر فلاسفہ اور جہانوں کی سیر کرنے والے ارباب معرفت نے آخرکار یہی نصیحت کی ہے کہ
نہر ہر جائے مرکب تواں تاختن
کہ جا ا سپر باید انداختن
البتہ غور و فکر اور عقل کی دوڑ دھوپ کا میدان مخلوقات الہیہ ہیں، جن میں صحیح غور و فکر کا لازمی نتیجہ ان کے خالق جل شانہ کی معرفت ہے، اتنا عظیم الشان وسیع و عریض آسمان اور اس میں آفتاب و مہتاب اور دوسرے ستارے جن میں کچھ ثوابت ہیں جو دیکھنے والوں کو اپنی جگہ ٹھہرے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کوئی بہت آہستہ حرکت ہو تو اس کا علم پیدا کرنے والے ہی کو ہے اور انہی ستاروں میں کچھ سیارات ہیں جن کے دورے نظام شمسی و قمری وغیرہ کے انداز میں نہایت محکم و مضبوط قانون کے تحت مقرر اور متعین ہیں، نہ ایک سیکنڈ ادھر ہوتے ہیں نہ ان کی مشینری کا کوئی پرزہ گھستا ہے، نہ ٹوٹتا ہے، نہ کبھی ان کو کسی ورکشاپ میں بھیجنے کی ضرورت ہوتی ہے، نہ اس کی مشینری کبھی رنگ و روغن چاہتی ہے، ہزاروں سال سے ان کے مسلسل دورے اسی نظام محکم اور معین اوقات کے ساتھ چل رہے ہیں، اسی طرح زمین کا پورا کرہ، اس کے دریا اور پہاڑ، اور دونوں میں طرح طرح کی مخلوقات درخت اور جانور اور زمین کی تہہ میں چھپی ہوئی معدنیات، اور زمین آسمان کے درمیان چلنے والی ہوا اور اس میں پیدا ہونے اور برسنے والی برق و باراں اور سال کے مخصوص نظام یہ سب کے سب سوچنے، سمجھنے والے کے لئے کسی ایسی ہستی کا پتہ دیتے ہیں جو علم و حکمت اور قوت وقدرت میں سب سے بالاتر ہے اور اسی کا نام معرفت ہے، تو یہ غور و فکر معرفت الہیہ کا سبب ہونے کی وجہ سے بہت بڑی عبادت ہے، اس لئے حضرت حسن بصری نے فرمایا، تفکر ساعة خیرمن قیام لیلتة ”(ابن کثیر) ”یعنی ایک گھڑی آیات قدرت میں غور کرنا پوری رات کی عبادت سے بہتر اور زیادہ مفید ہے۔
اور حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس غور و فکر کو افضل عبادت فرمایا ہے (ابن کثیر) حسن بن عامر نے فرمایا کہ میں نے بہت سے صحابہ کرام سے سنا ہے، سب یہ فرماتے تھے کہ ایمان کا نور اور روشنی تفکر ہے۔
حضرت ابو سلیمان دارانی ؒ نے فرمایا کہ میں گھر سے نکلتا ہوں تو جس چیز پر میری نگاہ پڑتی ہے میں کھلی آنکھوں دیکھتا ہوں کہ اس میں میرے لئے اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اور اس کے وجود میں میرے لئے عبرت حاصل کرنے کا سامان موجود ہے (ابن کثیر) اسی کو بعض عارفین نے فرمایا کہ
ہر گیا ہے کہ از زمین روید
وحدہ لاشریک لہ گوید
حضرت سفیان بن عینیہ کا ارشاد ہے کہ غور و فکر ایک نور ہے جو تیرے دل میں داخل ہو رہا ہے۔
حضرت وہب بن منبہ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص کثرت سے غور و فکر کرے گا تو حقیقت سمجھ لے گا اور جو سمجھ لے گا اس کو علم صحیح حاصل ہوجائے گا اور جس کو علم صحیح حاصل ہوگیا وہ ضرور عمل بھی کرے گا (ابن کثیر)
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ ایک بزرگ کا گذر ایک عابد زاہد کے پاس ہوا جو ایسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کے ایک طرف قبرستان تھا اور دوسری طرف گھروں کا کوڑا کباڑ وغیرہ تھا، گذرنے والے بزرگ نے کہا کہ دنیا کے دو خزانے تمہارے سامنے ہیں ایک انسانوں کا خزانہ جس کو قبرستان کہتے ہیں، دوسرا مال و دولت کا خزانہ جو فضلات اور گندگی کی صورت میں ہے، یہ دونوں خزانے عبرت کے لئے کافی ہیں۔ (ابن کثیر)
حضرت عبداللہ بن عمر اپنے قلب کی اصلاح و نگرانی کے لئے شہر سے باہر کسی ویرانہ کی طرف نکل جاتے تھے اور وہاں پر پہنچ کر کہتے این این اھلک یعنی تیرے بسنے والے کہاں گئے ؟ پھر خود ہی جواب دیتے کل شی ھالک الاوجھہ (82: 88) یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے (ابن کثیر) اس طرح تفکر کے ذریعہ آخرت کی یاد اپنے قلب میں مستحضر کرتے تھے۔
حضرت بشر حافی نے فرمایا کہ اگر لوگ اللہ تعالیٰ کی عظمت میں تفکر کرتے تو اس کی معصیت و نافرمانی نہ کرسکتے۔
اور حضرت عیسیٰ ؑ نے فرمایااے ضعیف الخلقت آدمی ! تو جہاں بھی ہو خدا سے ڈر، اور دنیا میں ایک مہمان کی طرح بسر کر اور مساجد کو اپنا گھر بنا لے اور اپنی آنکھوں کو خوف خدا سے رونے کا اور جسم کو صبر کا اور قلب کو تفکر کا عادی بنا دے اور کل کے رزق کی فکر نہ کر۔
آیت مذکورہ میں اسی فکر و تفکر کو عقلمند انسان کا اعلی وصف کر کے بیان فرمایا ہے اور جس طرح اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں غور و فکر کر کے حق تعالیٰ کی معرفت اور دنیا کی ناپائیداری کا علم حضوری حاصل کرلینا افضل عبادت اور نور ایمان ہے، اسی طرح آیات الہیہ کو دیکھنے اور برتنے کے باوجود خود ان مخلوقات کی ظاہری ٹیپ ٹاپ میں الجھ کر رہ جاتا اور ان کے ذریعہ مالک حقیقی کی معرفت حاصل نہ کرنا سخت نادانی اور ناسمجھ بچوں کی سی حرکت ہے، مولانا جامی نے اسی کو فرمایا ہے۔
ہمہ اندرزمن ترا زین است
کہ تو طفلی و خانہ رنگین است
اور اسی بےبصیرتی کو حضرت مجذب نے اس طرح بیان فرمایا۔
کچھ بھی مجنوں جو بصیرت تجھے حاصل ہو جائے
تو نے لیلی جسے سمجھا ہے وہ محمل ہو جائے
بعض حکماء نے فرمایا ہے کہ جو شخص کائنات عالم کو عبرت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا تو بقدر اس کی غفلت کے اس کے قلب کی بصیرت مٹ جاتی ہے آج کی سائنٹفک اور حیرت انگیز ایجادات اور ان میں الجھ کر رہ جانے والے موجدین کی اللہ تعالیٰ اور اپنے انجام کار سے غفلت حکماء کے اس مقولہ کی کھلی شادت ہے کہ سائنس کی ترقیات جوں جوں اللہ تعالیٰ کی کمال صنعت کے رازوں کو کھولتی جاتی ہیں، اتنا ہی وہ خدا شناسی اور حقیقت آگاہی سے اندھے ہوتے جاتے ہیں، بقول اکبر مرحوم
بھول کر بیٹھا ہے یورپ آسمانی باپ کو
بس خدا سمجھا ہے اس نے برق کو اور بھاپ کو
قرآن کریم نے ایسی ہی بےبصیرت لکھے پڑھے جاہلوں کے متعلق ارشاد فرمایا ہے۔ وکاین من ایة فی السموت والارض یمرون علیھا وھم عنھا معرضون، یعنی آسمان اور زمین میں کتنی ہی نشانیاں ہیں جن سے یہ لوگ منہ موڑ کر گذر جاتے ہیں ان کی حقیقت و صنعت اور ان کے صانع کی طرف توجہ نہیں دیتے
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات و مصنوعات میں غور و فکر کر کے اس کی عظمت وقدرت کا استحضار ایک اعلی عبادت ہے، ان سے کوئی عبرت حاصل نہ کرنا سخت نادانی ہے، آیت مذکورہ کے آخری جملے نے آیات قدرت میں غور و فکر کا نتیجہ بتلایا ہے۔ ربنا ماخلقت ھذا باطلاً یعنی حق تعالیٰ کی عظیم اور غیر محصور مخلوقات میں غور و فکر کرنے والا اس نتیجہ پر پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ان تمام چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے فضول و بیکار پیدا نہیں کیا ہے، بلکہ ان کی خلقت میں ہزاروں حکمتیں مضمر ہیں، ان سب کو انسان کا خادم اور انسان کو مخدوم کائنات بنا کر انسان کو اس غور و فکر کی دعوت دی ہے کہ ساری کائنات تو اس کے فائدہ کے لئے بنی ہے، اور انسان اللہ تعالیٰ کی اطاعت و عبادت کے لئے پیدا ہوا ہے، یہی اس کا مقصد زندگی ہے، اس کے بعد غور و فکر اور تفکر و تدبر کے نتیجہ میں وہ لوگ اس حقیقت پر پہنچے کہ کائنات عالم فضول و بیکار پیدا نہیں کی گئی، بلکہ یہ سب خالق کائنات کی عظیم قدرت و حکمت کے روشن دلائل ہیں۔
آگے ان لوگوں کی چند درخواستوں اور دعاؤں کا ذکر ہے جو انہوں نے اپنے رب کو پہچان کر اس کی بارگاہ میں پیش کیں۔
پہلی درخواست یہ ہے کہ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچایئے، کیونکہ جن کو آپ نے جہنم میں داخل کردیا اس کو سارے جہان کے سامنے رسوا کردیا۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ میدان حشر کے اندر رسوائی ایک ایسا عذاب ہوگا کہ آدمی یہ خواہش کرے گا کہ کاش ! اسے جہنم میں ڈال دیا جائے اور اس کی بدکاریوں کا چرچا اہل محشر کے سامنے نہ ہو۔
تیسری درخواست یہ ہے کہ ہم نے آپ کی طرف سے آنے والے منادی یعنی رسول اللہ ﷺ کی آواز کو سنا، اور اس پر ایمان لائے تو آپ ہمارے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیں اور ہمارے عیوب اور برائیوں کا کفارہ فرما دیں اور ہمیں نیک لوگوں کے ساتھ موت دیں، یعنی ان کے زمرہ میں شامل فرما لیں۔
یہ تین درخواستیں تو عذاب اور تکلیف اور مضرت سے بچنے کے لئے تھیں، آگے چوتھی درخواست فوائد اور منافع حاصل کرنے کے متعلق ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے ذریعے جو وعدہ آپ نے جنت کی نعمتیں کا فرمایا ہے وہ ہمیں اس طرح عطا فرمایئے کہ قیامت میں رسوائی بھی نہ ہو، یعنی اول مواخذہ اور بدنامی، بعد میں معافی کی صورت کے بجائے اول ہی سے معافی فرما دیجئے، آپ تو وعدہ خلافی نہیں کیا کرتے، مگر اس عرض و معروض کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس قابل بنا دیجئے کہ ہم یہ وعد حاصل کرنے کے مستحق ہوجائیں اور پھر اس پر قائم رہیں، یعنی خاتمہ ایمان اور عمل صالح پر ہو۔
Top