Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 54
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ١ؕ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَ۠   ۧ
وَمَكَرُوْا : اور انہوں نے مکر کیا وَ : اور مَكَرَ : خفیہ تدبیر کی اللّٰهُ : اللہ وَاللّٰهُ : اور اللہ خَيْرُ : بہتر الْمٰكِرِيْنَ : تدبیر کرنیوالے ہیں
اور مکر کیا ان کافروں نے اور مکر کیا اللہ نے اور اللہ کا داؤ سب سے بہتر ہے
خلاصہ تفسیر
اور ان لوگوں نے (جو کہ بنی اسرائیل میں سے آپ کے منکر نبوت تھے آپ کو ہلاک کرنے اور ایذا پہنچانے کے لئے) خفیہ تدبیر کی (چناچہ مکر و حیلہ سے آپ کو گرفتار کر کے سولی دینے پر آمادہ ہوئے) اور اللہ تعالیٰ نے (آپ کو محفوظ رکھنے کے لئے) خفیہ تدبیر فرمائی (جس کی حقیقت کا ان لوگوں کو بھی پتہ نہ لگا، کیونکہ انہیں مخالفین میں سے ایک شخص کو حضرت عیسیٰ ؑ کی شکل پر بنادیا، اور عیسیٰ ؑ کو آسمان پر اٹھا لیا جس سے وہ محفوظ رہے، اور وہ ہمشکل سولی دیا گیا، ان لوگوں کو اس تدبیر کا علم تک بھی نہ ہوسکا اور دفع پر تو کیا قدرت ہوتی) اور اللہ تعالیٰ سب تدبیریں کرنے والوں سے اچھے ہیں (کیونکہ اوروں کی تدبیریں ضعیف ہوتی ہیں، اور کبھی قبیح اور بےموقع بھی ہوتی ہیں، اور حق تعالیٰ کی تدبیریں قوی بھی ہوتی ہیں اور ہمیشہ خیر محض اور موافق حکمت کے ہوتی ہیں، اور وہ تدبیر اللہ تعالیٰ نے اس وقت فرمائی) جبکہ اللہ تعالیٰ نے (حضرت عیسیٰ ؑ سے جبکہ وہ گرفتاری کے وقت متردد اور پریشان ہوئے) فرمایا اے عیسیٰ (کچھ غم نہ کرو) بیشک میں آپ کو (اپنے وقت موعود پر طبعی موت سے) وفات دینے والا ہوں (پس جب تمہارے لئے موت طبعی مقدر ہے تو ظاہر ہے کہ ان دشمنوں کے ہاتھوں دار پر جان دینے سے محفوظ رہو گے) اور (فی الحال) میں تم کو اپنے (عالم بالا کی) طرف اٹھائے لیتا ہوں، اور تم کو ان لوگوں (کی تہمت) سے پاک کرنے والا ہوں جو (تمہارے) منکر ہیں اور جو لوگ تمہارا کہنا ماننے والے ہیں ان کو غالب رکھنے والا ہوں ان لوگوں پر جو کہ (تمہارے) منکر ہیں روز قیامت تک (گو اس وقت یہ منکرین غلبہ اور قدرت رکھتے ہیں) پھر (جب قیامت آجائے گی اس وقت) میری طرف ہوگی، سب کی واپسی (دنیا و برزخ سے) سو میں (اس وقت) تمہارے (سب کے) درمیان (عملی) فیصلہ کردوں گا ان امور میں جن میں تم باہم اختلاف کرتے تھے کہ (منجملہ ان امور کے مقدمہ ہے عیسیٰ ؑ کا)۔
آیت کے اہم الفاظ کی تشریحاس آیت کے الفاظ و معانی میں بعض فرقوں نے تحریفات کا دروازہ کھولا ہے جو تمام امت کے خلاف حضرت عیسیٰ ؑ کی حیات اور آخر زمانہ میں نزول کے منکر ہیں، اس لئے مناسب معلوم ہوا کہ ان الفاظ کی تشریح و ضاحت کے ساتھ کردی جائے۔
(واللہ خیر الماکرین) لفظ " مکر " عربی زبان میں لطیف و خفیہ تدبیر کو کہتے ہیں، اگر وہ اچھے مقصد کے لئے ہو تو اچھا ہے، اور برائی کے لئے ہو تو برا ہے، اسی لئے ولا یحیق المنکر السیء (35: 43) میں مکر کے ساتھ " سیء " کی قید لگائی، اردو زبان کے محاورات میں مکر صرف سازش اور بری تدبیر اور حیلہ کے لئے بولا جاتا ہے، اس سے عربی محاورات پر شبہ نہ کیا جائے، اسی لئے یہاں خدا کو " خیر الماکرین " کہا گیا، مطلب یہ ہے کہ یہود نے حضرت عیسیٰ ؑ کے خلاف طرح طرح کی سازشیں اور خفیہ تدبیریں شروع کردیں، حتی کہ بادشاہ کے کان بھر دیئے کہ یہ شخص (معاذ اللہ) ملحد ہے، تورات کو بدلنا چاہتا ہے، سب کو بد دین بنا کر چھوڑے گا، اس نے مسیح ؑ کی گرفتاری کا حکم دیدیا، ادھر یہ ہورہا تھا، اور ادھر حق تعالیٰ کی لطیف و خفیہ تدبیر ان کے توڑ میں اپنا کام کر رہی تھی جس کا ذکر اگلی آیات میں ہے۔ (تفسیر عثمانی)
Top