Maarif-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 72
وَ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اٰمِنُوْا بِالَّذِیْۤ اُنْزِلَ عَلَى الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَجْهَ النَّهَارِ وَ اكْفُرُوْۤا اٰخِرَهٗ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَۚۖ
وَقَالَتْ : اور کہا طَّآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنْ : سے (کی) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اٰمِنُوْا : تم مان لو بِالَّذِيْٓ : جو کچھ اُنْزِلَ : نازل کیا گیا عَلَي : پر الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے (مسلمان) وَجْهَ النَّهَارِ : اول حصہ دن وَاكْفُرُوْٓا : اور منکر ہوجاؤ اٰخِرَهٗ : اس کا آخر (شام) لَعَلَّھُمْ : شاید وہ يَرْجِعُوْنَ : وہ پھرجائیں
اور کہا بعض اہل کتاب نے مان لو جو کچھ اترا مسلمانوں پر دن چڑھے اور منکر ہوجاؤ آخر دن میں شاید وہ پھر جاویں،
خلاصہ تفسیر
اور بعضے لوگوں نے اہل کتاب میں سے (بطور مشورہ باہم) کہا کہ (مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی ایک تدبیر ہے کہ ظاہرا) ایمان لے آؤ اس (کتاب) پر جو نازل کی گئی ہے (بواسطہ رسول اللہ ﷺ کے) مسلمانوں پر (مراد یہ کہ قرآن پر ایمان لے آؤ) شروع دن میں (یعنی صبح کے وقت) اور (پھر) انکار کر بیٹھو آخر دن (یعنی شام کو) عجب کیا (اس تدبیر سے مسلمانوں کو بھی قرآن اور اسلام کے حق میں شبہ پڑجائے اور) وہ (اپنے دین سے) پھر جاویں، (اور یہ خیال کریں کہ یہ لوگ علم والے ہیں اور بےتعصب بھی ہیں کہ اسلام قبول کرلیا، اس پر بھی جو پھرگئے تو ضرور اسلام کا غیر حق ہونا ان کو دلائل علمیہ سے ثابت ہوگیا ہوگا، اور ضرور انہوں نے اسلام میں کوئی خرابی دیکھی ہوگی جب ہی تو اس سے پھرگئے اور اہل کتاب نے یہ بھی باہم کہا کہ مسلمانوں کے دکھلانے کو صرف ظاہری ایمان لانا) اور (صدق دل سے) کسی کے روبرو (دین کا) اقرار مت کرنا، مگر ایسے شخص کے روبرو جو تمہارے دین کا پیرو ہو (اس کے روبرو تم کو اپنے قدیم دین کا اقرار خلوص سے کرنا چاہئے باقی غیر مذاہب والوں کے یعنی مسلمانوں کے روبرو ویسے ہی بہ مصلحت مذکورہ زبانی اسلام کا اقرار کرلینا حق تعالیٰ ان کی تدبیر کے لچر ہونے کا اظہار فرماتے ہیں کہ) اے محمد ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ (ان چالاکیوں سے کچھ نہیں ہوتا، کیونکہ) یقینا ہدایت (جو بندوں کو ہوتی ہے وہ) ہدایت اللہ کی (طرف سے ہوتی) ہے (پس جب ہدایت قبضہ خداوندی میں ہے تو وہ جس کو ہدایت پر قائم رکھنا چاہیں اس کو کوئی دوسرا کسی تدبیر سے نہیں بچا سکتا ہے، آگے ان کے اس مشورہ و تدبیر کی علت بتلاتے ہیں کہ اے اہل کتاب تم) ایسی باتیں اس لئے کرتے ہو کہ کسی اور کو بھی ایسی چیز مل رہی ہے جیسی تم کو ملی تھی (یعنی کتاب اور دین آسمانی) یا وہ اور لوگ تم پر غالب آجویں (اس دین حق کی تعیین میں جو) تمہارے رب کے نزدیک (ہے، حاصل علت کا یہ ہوا کہ تم کو مسلمانوں پر حسد ہے کہ ان کو آسمانی کتاب کیوں مل گئی، یا یہ لوگ ہم پر مذہبی مناظرہ میں کیوں غالب آجاتے ہیں، اس حسد کی وجہ سے اسلام اور اہل اسلام کے تنزل کی کوشش کر رہے ہیں، آگے اس حسد کا رد ہے کہ) اے محمد ﷺ آپ کہہ دیجیے کہ بیشک فضل تو خدا کے قبضہ میں ہے وہ اس سے جسے چاہیں عطا فرمادیں اور اللہ تعالیٰ بڑی وسعت والے ہیں (ان کے یہاں فضل کی کمی نہیں اور) خوب جاننے والے ہیں (کہ کس وقت کس کو دینا مناسب ہے اس لئے) خاص کردیتے ہیں اپنی رحمت (و فضل) کے ساتھ، جس کو چاہیں اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والے ہیں (پس اس وقت برعایت حکمت مسلمانوں پر فضل و رحمت فرمادیا اس میں حسد کرنا فضول اور جہل ہے)۔
Top