Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 10
اِذْ جَآءُوْكُمْ مِّنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ اَسْفَلَ مِنْكُمْ وَ اِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوْبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّوْنَ بِاللّٰهِ الظُّنُوْنَا
اِذْ : جب جَآءُوْكُمْ : وہ تم پر آئے مِّنْ : سے فَوْقِكُمْ : تمہارے اوپر وَمِنْ اَسْفَلَ : اور نیچے سے مِنْكُمْ : تمہارے وَاِذْ : اور جب زَاغَتِ الْاَبْصَارُ : کج ہوئیں (چندھیا گئیں) آنکھیں وَبَلَغَتِ : اور پہنچ گئے الْقُلُوْبُ : دل (جمع) الْحَنَاجِرَ : گلے وَتَظُنُّوْنَ : اور تم گمان کرتے تھے بِاللّٰهِ : اللہ کے بارے میں الظُّنُوْنَا : بہت سے گمان
جب چڑھ آئے تم پر اوپر کی طرف سے اور نیچے سے اور جب بدلنے لگیں آنکھیں اور پہنچے دل گلوں تک اور اٹکل کرنے لگے تم اللہ پر طرح طرح کی اٹکلیں
معارف و مسائل
سابقہ آیات میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت شان اور مسلمانوں کو آپ کے مکمل اتباع و اطاعت کی ہدایت تھی۔ اسی کی مناسبت سے یہ پورے دو رکوع قرآن کے غزوہ احزاب کے واقعہ سے متعلق نازل ہوئے ہیں، جس میں کفار و مشرکین کی بہت سی جماعتوں کا مسلمانوں پر یکبارگی حملہ اور سخت نرغہ کے بعد مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کے انعامات اور رسول اللہ ﷺ کے متعدد معجزات کا ذکر ہے۔ اور اس کے ضمن میں زندگی کے مختلف شعبوں سے متعلق بہت سی ہدایات اور احکام ہیں۔ انہی بےبہا ہدایات کی وجہ سے اکابر مفسرین نے اس جگہ واقعہ احزاب کو خاص تفصیل سے لکھا ہے خصوصاً قرطبی اور مظہری وغیرہ نے۔ اس لئے واقعہ احزاب کی کچھ تفصیل مع ان ہدایات کے لکھی جاتی ہے جس کا اکثر حصہ قرطبی اور مظہر سے لیا گیا ہے، جو کسی دوسری کتاب سے لیا ہے، اس کا حوالہ لکھ دیا گیا ہے۔
واقعہ غزوہ احزاب
احزاب، حزب کی جمع ہے، جس کے معنی پارٹی یا جماعت کے آتے ہیں۔ اس غزوہ میں کفار کی مختلف جماعتیں متحد ہو کر مسلمانوں کو ختم کردینے کا معاہدہ کر کے مدینہ پر چڑھ آئی تھیں، اسی لئے اس غزوہ کا نام غزوہ احزاب رکھا گیا ہے۔ اور چونکہ اس غزوہ میں دشمن کے آنے کا راستہ پر بامر نبی کریم ﷺ خندق کھودی گئی تھی، اس لئے اس کو غزوہ خندق بھی کہتے ہیں۔ غزوہ بنو قریظہ بھی جو غزوہ احزاب کے فوراً بعد ہوا اور مذکورہ آیات میں اس کا بھی ذکر ہے وہ بھی درحقیقت غزوہ احزاب ہی کا ایک جز تھا، جیسا کہ واقعہ کی تفصیل سے معلوم ہوگا۔
رسول اللہ ﷺ جس سال مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے، اس کے دوسرے ہی سال میں غزوہ بدر کا واقعہ پیش آیا۔ تیسرے سال میں غزوہ احد پیش آیا، چوتھے سال میں یہ غزوہ احزاب واقع ہوا۔ اور بعض روایات میں اس کو پانچویں سال کا واقعہ قرار دیا ہے۔ بہرحال ابتداء ہجرت سے اس وقت تک کفار کے حملے مسلمانوں پر مسلسل جاری تھے غزوہ احزاب کا حملہ بڑی بھرپور طاقت وقوت اور پختہ عزم اور عہد و میثاق کے ساتھ کیا گیا تھا اس لئے آنحضرت ﷺ اور صحابہ کرام پر یہ غزوہ سب دوسرے غزوات سے زیادہ اشد تھا۔ کیونکہ اس میں حملہ آور احزاب کفار کی تعداد بارہ سے پندرہ ہزار تک بتلائی گئی ہے، اور اس طرف سے مسلمان کل تین ہزار وہ بھی بےسروسامان، اور زمانہ سخت سردی کا۔ قرآن کریم نے تو اس واقعہ کی شدت بڑی ہولناک صورت میں یہ بیان فرمائی ہے، زاغت الابصار (آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں) بلغت القلوب الحناجر (کلیجے منہ کو آنے لگے) وزلزلوا زلزالاً شدیداً (سخت زلزلہ میں ڈالے گئے)۔
مگر جیسا کہ یہ وقت مسلمانوں پر سب سے زیادہ سخت تھا، ویسے ہی اللہ تعالیٰ کی نصرت و امداد سے اس کا انجام مسلمانوں کے حق میں ایسی عظیم فتح و کامیابی کی صورت میں سامنے آیا کہ اس نے تمام مخالف گروہوں مشرکین، یہود اور منافقین کی کمریں توڑ دیں، اور آگے ان کو اس قابل نہیں چھوڑا کہ وہ مسلمانوں پر کسی حملے کا ارادہ کرسکیں۔ اس لحاظ سے یہ غزوہ کفر واسلام کا آخری معرکہ تھا، جو مدینہ منورہ کی زمین پر ہجرت کے چوتھے یا پانچویں سال میں لڑا گیا۔
اس واقعہ کی ابتداء یہاں سے ہوئی کہ یہود کے قبیلہ بنی نضیر اور قبیلہ بنی وائل کے تقریباً بیس آدمی جو رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں سے سخت عداوت رکھتے تھے مکہ مکرمہ پہنچے، اور قریشی سرداروں سے ملاقات کر کے ان کو مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے آمادہ کیا۔ قریشی سردار سمجھتے تھے کہ جس طرح مسلمان ہماری بت پرستی کو کفر کہتے ہیں اور اس لئے ہمارے مذہب کو برا سمجھتے ہیں یہود کا بھی یہی خیال ہے، تو ان سے موافقت و اتحاد کی کیا توقع رکھی جائے۔ اس لئے ان لوگوں نے یہود سے سوال کیا کہ آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہمارے اور محمد ﷺ کے درمیان دین و مذہب کا اختلاف ہے اور آپ لوگ اہل کتاب اور اہل علم ہیں، پہلے ہمیں یہ بات بتلائیے کہ آپ کے نزدیک ہمارا دین بہتر ہے یا ان کا۔
سیاست کے اکھاڑے میں جھوٹ کوئی نئی چیز نہیں
ان یہودیوں نے اپنے علم و ضمیر کے بالکل خلاف ان کو یہ جواب دیا کہ تمہارا دین محمد ﷺ کے دین سے بہتر ہے۔ اس پر یہ لوگ کچھ مطمئن ہوئے، مگر اس پر بھی معاملہ یہ ٹھہرا کہ بیس آدمی یہ آنے والے اور پچاس آدمی قریشی سرداروں کے مسجد حرام میں جا کر بیت اللہ کی دیواروں سے سینے لگا کر اللہ کے سامنے یہ عہد کریں کہ ہم میں سے جب تک ایک آدمی بھی زندہ رہے گا ہم محمد ﷺ کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے علم و کرم کا ایک عجوبہ
اللہ کے گھر میں اللہ کے بیت سے چمٹ کر اللہ کے دشمن اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کا معاہدہ کر رہے ہیں، اور مطمئن ہو کر جنگ کا نیا جذبہ لے کر لوٹتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے علم و کرم کا عجیب مظہر ہے۔ پھر ان کے اس معاہدہ کا حشر بھی آخر قصہ میں معلوم ہوگا کہ سب کے سب اس جنگ سے منہ موڑ کر بھاگے۔
یہ یہودی قریش مکہ کے ساتھ معاہدہ کرنے کے بعد عرب کے ایک بڑے اور جنگجو قبیلہ غطفان کے پاس پہنچے اور ان کو بتلایا کہ ہم اور قریش مکہ اس پر متفق ہوچکے ہیں کہ اس نئے دین (اسلام) کے پھیلانے والوں کا ایک مرتبہ سب مل کر استیصال کردیں۔ آپ بھی اس پر ہم سے معاہدہ کریں۔ اور ان کو یہ رشوت بھی پیش کی کہ خیبر میں جس قدر کھجور ایک سال میں پیدا ہوگی وہ اور بعض روایات میں اس کا نصف قبیلہ غطفان کو دیا جانے کا وعدہ کیا۔ قبیلہ غطفان کے سردار عیینہ بن حصن نے اس شرط کے ساتھ ان سے شرکت کو منظور کرلیا اور یہ لوگ بھی جنگ میں شامل ہوگئے۔
اور باہمی قرار داد کے مطابق مکہ سے قریشیوں کا لشکر چار ہزار جوانوں اور تین سو گھوڑوں اور ایک ہزار اونٹوں کے سامان کے ساتھ ابوسفیان کی قیادت میں مکہ مکرمہ سے نکلا اور مرظہران میں قیام کیا یہاں قبیلہ اسلم اور قبیلہ اشجع اور بنو مرہ، بنو کنانہ اور فزارہ اور غطفان کے سب قبائل شامل ہوگئے۔ جن کی مجموعی تعداد بعض روایات میں دس بعض میں بارہ ہزار اور بعض میں پندرہ ہزار بیان کی گئی ہے۔
مدینہ منورہ پر سب سے بڑا حملہ
غزوہ بدر میں مسلمانوں کے مقابل آنے والا لشکر ایک ہزار کا تھا، پھر غزوہ احد میں حملہ کرنے والا لشکر تین ہزار کا تھا۔ اس مرتبہ لشکر کی تعداد بھی ہر پہلی مرتبہ سے زائد تھی، اور سامان بھی اور تمام قبائل عرب و یہود کی اتحادی طاقت بھی۔
مسلمانوں کی جنگی تیاری (1) اللہ پر توکل (2) باہمی مشورہ (3) بقدر وسعت مادی وسائل کی فراہمی
رسول اللہ ﷺ کو اس متحدہ محاذ کے حرکت میں آنے کی اطلاع ملی تو سب سے پہلا کلمہ جو زبان مبارک پر آیا یہ تھا حسبنا اللہ و نعم الوکیل، ”یعنی ہمیں اللہ کافی اور وہی ہمارا بہتر کار ساز ہے“ اس کے بعد مہاجرین و انصار کے اہل حل وعقد کو جمع کر کے ان سے مشورہ لیا۔ اگرچہ صاحب وحی کو درحقیقت مشورہ کی ضرورت نہیں ہوتی، وہ براہ راست حق تعالیٰ کے اذن و اجازت سے کام کرتے ہیں مگر مشورے میں دو فائدے تھے۔ ایک امت کے لئے مشورہ کی سنت جاری کرنا، دوسرے قلوب مومنین میں باہمی ربط و اتحاد کی تجدید اور تعاون و تناصر کا جذبہ بیدار کرنا۔ اس کے بعد دفاع اور جنگ کے مادی وسائل پر غور ہوا۔ مجلس مشورہ میں حضرت سلمان فارسی بھی شامل تھے جو ابھی حال میں ایک یہودی کی مصنوعی غلامی سے نجات حاصل کر کے اسلامی خدمات کے لئے تیار ہوئے تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ ہمارے بلاد فارس کے بادشاہ ایسے حالات میں دشمن کا حملہ روکنے کے لئے خندق کھود کر ان کا راستہ روک دیتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے یہ مشورہ قبول فرما کر خندق کھودنے کا حکم دے دیا۔ اور بنفس نفیس خود بھی اس کام میں شریک ہوئے۔
خندق کی کھدائی
یہ خندق جبل سلع کے پیچھے اس پورے راستہ کی لمبائی پر کھودنا طے ہوا جس سے مدینہ کے شمال کی طرف سے آنے والے دشمن آسکتے تھے، اس خندق کے طول وعرض کا خطہ خود رسول کریم ﷺ نے کھینچا۔ یہ خندق قلعہ شیخین سے شرو ہو کر جبل سلع کے مغربی گوشہ تک آئی اور بعد میں اسے بڑھا کر وادی بطحان اور وادی راتونا کے مقام اتصال تک پہنچا دیا گیا۔ اس خندق کی کل لمبائی تقریباً ساڑھے تین میل تھی، چوڑائی اور گہرائی کی صحیح مقدار کسی روایت سے معلوم نہیں ہوئی، لیکن یہ ظاہر ہے کہ چوڑائی اور گہرائی بھی خاصی ہوگی جس کو عبور کرنا دشمن کے لئے آسان نہ ہو۔
حضرت سلمان کے خندق کھودنے کے واقعہ میں یہ آیا ہے کہ وہ روزانہ پانچ گز لمبی اور پانچ گز گہری خندق کھودتے تھے (مظہری) اس سے خندق کی گہرائی پانچ گز کہی جاسکتی ہے۔
اسلامی لشکر کی تعداد
اس وقت مسلمانوں کی کل جمعیت تین ہزار تھی اور کل چھتیس گھوڑے تھے۔
بلوغ کی عمر پندرہ سال قرار دی گئی
اسلامی لشکر میں کچھ نابالغ بچے بھی اپنے جوش ایمانی سے نکل کھڑے ہوئے تھے۔ رسول اللہ ﷺ نے ان بچوں کو واپس کردیا جو پندرہ سال سے کم عمر تھے، پندرہ سالہ نوعمر لے لئے گئے۔ جن میں حضرت عبداللہ بن عمر، زید بن ثابت، ابو سعید خدری، براء بن عازب ؓ شامل ہیں۔ جس وقت یہ اسلامی لشکر مقابلہ کے لئے روانہ ہونے لگا تو جو منافقین مسلمانوں میں رلے ملے رہتے تھے انہوں نے سرکنا شروع کیا۔ کچھ چھپ کر نکل گئے، کچھ لوگوں نے جھوٹے اعذار پیش کر کے رسول اللہ ﷺ سے واپسی کی اجازت لینی چاہی۔ یہ اپنے اندر سے ایک نئی آفت پھوٹی، مذکورہ الصدر آیات میں انہی منافقین کے متعلق چند آیات نازل ہوئی ہیں۔ (قرطبی)
قبائلی اور نسبی قومیتوں کا انتظامی معاشرتی امتیاز اسلامی وحدت اور اسلامی قومیت کے منافی نہیں
رسول اللہ ﷺ نے اس جہاد کے لئے مہاجرین کا جھنڈا حضرت زید بن حارثہ کے سپرد فرمایا۔ اس وقت مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات (بھائی چارے) کے تعلقات بڑی مضبوط و مستحکم بنیادوں پر قائم تھے، اور سب بھائی بھائی تھے۔ مگر انتظامی سہولت کے لئے مہاجرین کی قیادت الگ اور انصار کی الگ کردی گئی تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلامی قومیت اور اسلامی وحدت انتظامی اور معاشرتی تقسیم کے منافی نہیں بلکہ ہر جماعت پر ذمہ داری کا بوجھ ڈال دینے سے باہمی اعتماد اور تعاون و تناصر کے جذبہ کی تقویت ہوئی تھی۔ اور اس جنگ کے سب سے پہلے کام یعنی خندق کھودنے میں اس تعاون و تناصر کا اس طرح مشاہدہ ہوا کہ۔
خندق کی کھدائی کی تقسیم پورے لشکر پر کی گئی
رسول اللہ ﷺ نے پورے لشکر کے مہاجرین و انصار کو دس دس آدمیوں کی جماعت میں تقسیم کر کے ہر دس آدمیوں کو چالیس گز خندق کھودنے کا ذمہ دار بنایا۔ حضرت سلمان فارسی چونکہ خندق کھودنے کا مشورہ دینے والے اور کام سے واقف اور مضبوط آدمی تھے، اور نہ انصار میں شامل تھے نہ مہاجرین میں، ان کے متعلق انصار و مہاجرین میں ایک مسابقت کی فضا پیدا ہوگئی۔ انصار ان کو اپنے میں شامل کرنا چاہتے تھے، مہاجرین اپنے میں۔ یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کو رفع نزاع کے لئے مداخلت کرنے کی نوبت آئی اور آپ نے فیصلہ دیا کہ سلمان ہمارے اہل بیت میں شامل ہیں۔
صلاحیت کار میں ملکی غیر ملکی، مقامی اور بیرونی کا امتیاز
آج تو غیر ملکی باشندے اور غیر مقامی کو اپنی برابر کا درجہ دینا لوگ پسند نہیں کرتے وہاں ہر فریق اہل صلاحیت کو اپنے ساتھ شامل کرنے میں فخر محسوس کرتا تھا اس لئے رسول اللہ ﷺ نے ان کو اہل بیت میں خود داخل فرما کر نزاع کو ختم کیا اور عملی طور پر چند انصار اور چند مہاجرین شامل کر کے ان کے دس کی جماعت بنائی جس میں حضرت عمر و بن عوف اور حذیفہ وغیرہ مہاجرین میں سے تھے۔
ایک عظیم معجزہ
اتفاق سے جو حصہ خندق کا حضرت سلمان وغیرہ کے سپرد تھا اس میں ایک سخت اور چکنے پتھر کی بڑی چٹان نکل آئی۔ حضرت سلمان کے ساتھی عمرو بن عوف فرماتے ہیں کہ اس چٹان نے ہمارے اوزار توڑ دیئے اور ہم اس کے کاٹتے سے عاجز ہوگئے تو میں نے سلمان سے کہا کہ اگرچہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس جگہ سے کچھ ہٹ کر خندق کھودیں اور ذرا سی کجی کے ساتھ اس کو اصل خندق سے ملا دیں مگر رسول اللہ ﷺ کے کھینچے ہوئے خط سے انحراف ہمیں اپنی رائے سے نہیں کرنا چاہئے، آپ آنحضرت محمد ﷺ سے یہ واقعہ بیان کر کے حکم حاصل کریں کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے۔
قدرت کی تنبیہات
اس ساڑھے تین میل کے میدان میں خندق کھودنے والوں میں کسی کو رکاوٹ پیش نہ آئی جو عاجز کر دے۔ پیش آئی تو حضرت سلمان کو پیش آئی، جنہوں نے خندق کھودنے کا مشورہ دیا تھا اور اسی کو قبول کر کے یہ سلسلہ جاری ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو دکھلا دیا کہ خندق کھودنے اور بنانے میں بھی اللہ کی طرف رجوع کے سوا چارہ نہیں، آلات و اوزار سب جواب دے چکے جس میں ان حضرات کو تعلیم تھی کہ مادی اسباب کو بقدر وسعت و طاقت جمع کرنا فرض ہے، مگر ان پر بھروسہ کرنا درست نہیں۔ مومن کا بھروسہ تمام اسباب مادیہ کو جمع کرلینے کے بعد بھی اللہ تعالیٰ پر ہی ہونا چاہئے۔
حضرت سلمان رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ بتلایا۔ رسول اللہ ﷺ خود بھی اپنے حصہ کی خندق میں کام کر رہے تھے، خندق کی مٹی کو اس جگہ سے منتقل کرنے میں مصروف تھے۔ حضرت براء بن عازب فرماتے ہیں کہ میں نے آپ کو دیکھا کہ آپ کے جسم مبارک کو غبار نے ایسا ڈھانپ لیا تھا کہ پیٹ اور پیٹھ کی کھال نظر نہ آتی تھی۔ ان کو کوئی مشورہ یا حکم دینے کے بجائے خود ان کے ساتھ موقع پر تشریف لائے اور دس حضرات صحابہ مع سلمان کے جو اس کھودنے میں مصروف تھے خندق کے اندر اتر کر آپ بھی ان میں شامل ہوگئے۔ اور کدال اپنے دست مبارک میں لے کر اس چٹان پر ایک ضرب لگائی۔ اور یہ آیت پڑھی (آیت) تمت کلمة ربک صدقاً (یعنی پوری ہوگئی نعمت آپ کے رب کی سچائی کے ساتھ) اس کی ایک ہی ضرب سے چٹان کا ایک تہائی حصہ کٹ گیا اور اس کے ساتھ ہی ایک روشنی پتھر کی چٹان سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد آپ نے دوسری ضرب لگائی اور آیت مذکورہ کو آخر تک پڑھا، یعنی تمت کلمة ربک صدقاً عدلاً ، اس دوسری ضرب سے ایک تہائی چٹان اور کٹ گئی، اور اس پتھر سے ایک روشنی نکلی۔ تیسری مرتبہ پھر وہی آیت پوری پڑھ کر تیسری ضرب لگائی تو باقی چٹان بھی کٹ کر ختم ہوگئی، اور رسول اللہ ﷺ خندق سے باہر تشریف لائے۔ اور اپنی چادر جو خندق کے کنارہ پر رکھ دی تھی اٹھا لی اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ اس وقت سلمان فارسی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ نے جتنی مرتبہ اس پتھر پر ضرب لگائی میں نے ہر مرتبہ پھر سے ایک روشنی نکلتی دیکھی۔ رسول اللہ ﷺ نے حضرت سلمان سے فرمایا کہ کیا واقعی تم نے یہ روشنی دیکھی ہے ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میری آنکھوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ پہلی ضرب میں جو روشنی نکلی میں نے اس روشنی میں یمن اور کسریٰ کے محلات دیکھے اور جبرئیل امین نے مجھے بتلایا کہ آپ کی امت ان شہروں کو فتح کرلے گی اور جب میں نے دوسری ضرب لگائی تو مجھے رومیوں کے سرخ محلات دکھائے گئے، اور جبرائیل امین نے یہ خوش خبری دے دی کہ آپ کی امت ان شہروں کو بھی فتح کرلے گی۔ یہ ارشاد سن کر سب مسلمان مطمئن ہوئے اور آئندہ عظیم الشان فتوحات پر یقین ہوگیا۔
Top