Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 13
وَ اِذْ قَالَتْ طَّآئِفَةٌ مِّنْهُمْ یٰۤاَهْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوْا١ۚ وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْهُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَةٌ١ۛؕ وَ مَا هِیَ بِعَوْرَةٍ١ۛۚ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا
وَاِذْ : اور جب قَالَتْ : کہا طَّآئِفَةٌ : ایک گروہ مِّنْهُمْ : ان میں سے يٰٓاَهْلَ يَثْرِبَ : اے یثرت (مدینہ) والو لَا مُقَامَ : کوئی جگہ نہیں لَكُمْ : تمہارے لیے فَارْجِعُوْا ۚ : لہذا تم لوٹ چلو وَيَسْتَاْذِنُ : اور اجازت مانگتا تھا فَرِيْقٌ : ایک گروہ مِّنْهُمُ : ان میں سے النَّبِيَّ : نبی سے يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے تھے اِنَّ : بیشک بُيُوْتَنَا : ہمارے گھر عَوْرَةٌ ړ : غیر محفوظ وَمَا هِىَ : حالانکہ وہ نہیں بِعَوْرَةٍ ڔ : غیر محفوظ اِنْ يُّرِيْدُوْنَ : وہ نہیں چاہتے اِلَّا : مگر (صرف) فِرَارًا : فرار
اور جب کہنے لگی ایک جماعت ان میں سے اے یثرب والو ! تمہارے لئے ٹھکانہ نہیں سو پھر چلو اور رخصت مانگنے لگا ایک فرقہ ان میں نبی سے کہنے لگے ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں اور وہ کھلے نہیں پڑے ان کی کوئی غرض نہیں مگر بھاگ جانا
دوسرا حال منافقین کا ذکر فرمایا ہے کہ انہوں نے کھلے طور پر اللہ و رسول کے وعدوں کو دھوکہ فریب کہنا شروع کردیا، (آیت) واذیقول المنفقون والذین فی قلوبہم مرض ما وعدنا اللہ و رسولہ الاغروراً ، یہ ان کے باطنی کفر کا اظہار تھا آگے عملی طور پر وہ منافقین جو ظاہر میں مسلمانوں کے ساتھ شریک جہاد تھے، ان کے دو طبقوں کا ذکر ہے۔ ایک طبقہ تو بےپوچھے بھاگنے لگا، جس نے کہا (آیت) یاھل یثرب لا مقام لکم فارجعوا، اور دوسرے طبقے نے حیلے بہانے تراش کر کے آنحضرت ﷺ سے واپس چلے جانے کی درخواست کی جن کا حال یہ ذکر کیا گیا ہے کہ (آیت) ویستاذن فریق منہم النبی یقولون ان بیوتنا عورة الایة، قرآن کریم نے ان کے حیلے بہانے کو کھول دیا کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ حقیقت اس کے سوا کچھ نہیں کہ یہ میدان سے بھاگنا چاہتے ہیں۔ ان یریدون الافراراً ، آگے کئی آیتوں میں ان کی شرارت اور مسلمانوں کے ساتھ عداوت پھر ان کے انجام بد کا ذکر فرمایا۔
اس کے بعد مومنین مخلصین کا ذکر فرما کر ان کے ثبات و استقلال کی مدح کی گئی ہے۔ اس کے ضمن میں رسول اللہ ﷺ کے اتباع و اقتداء کی تاکید ایک ضابطہ کی صورت میں بیان فرمائی گئی ہے، (آیت) لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنہ، اس سے رسول کریم ﷺ کے اقوال و افعال سب کی اقتداء کا حکم ثابت ہوا، مگر محققین آئمہ تفسیر کے نزدیک اس کی عملی صورت یہ ہے کہ جس کام کا کرنا یا چھوڑنا رسول اللہ ﷺ سے بدرجہ وجوب ثابت ہو اس کا اتباع واجب و لازم ہے۔ اور جس کام کا کرنا یا چھوڑنا بدرجہ استحباب ثابت ہو اس کا کرنا یا چھوڑنا ہم پر بھی درجہ استحباب میں رہے گا کہ اس کی خلاف ورزی گناہ نہ قرار دی جائے گی۔ (قلت الیہ یرجع کلام الجصاص فی حکام القرآن)
آیات مذکورہ میں سے آخری تین آیتوں میں واقعہ بنو قریظہ کا ذکر ہے (آیت) وانزل الذین ظاہروہم من اہل الکتب من صیاصیہم، یعنی جن اہل کتاب نے اہل احزاب کی مدد کی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کا رعب ڈال کر ان کے مضبوط قلعوں سے ان کو نیچے اتار دیا، اور ان کے اموال اور دار و دیار کا مسلمانوں کو وارث بنایا۔
آخری آیت میں آئندہ ہونے والی فتوحات کی خوشخبری دی گئی ہے کہ اب کفار کے حملے ختم ہوئے، اب مسلمانوں کی فتوحات کا دور شروع ہوگا اور ایسی ایسی زمینیں ان کے قبضہ میں آئیں گی جہاں ان کے قدم بھی اب تک نہیں پہنچے۔ جس کا ظہور صحابہ کرام کے دور میں سب کی آنکھوں نے دیکھ لیا کہ کسریٰ و قیصر کی سب سے بڑی سلطنتیں ان کے زیرنگیں آگئیں۔ واللہ یفعل مایشاء۔
Top