Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 52
لَا یَحِلُّ لَكَ النِّسَآءُ مِنْۢ بَعْدُ وَ لَاۤ اَنْ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ اَزْوَاجٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ اِلَّا مَا مَلَكَتْ یَمِیْنُكَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ رَّقِیْبًا۠   ۧ
لَا يَحِلُّ : حلال نہیں لَكَ : آپ کے لیے النِّسَآءُ : عورتیں مِنْۢ بَعْدُ : اس کے بعد وَلَآ : اور نہ اَنْ تَبَدَّلَ : یہ کہ بدل لیں بِهِنَّ : ان سے مِنْ : سے (اور) اَزْوَاجٍ : عورتیں وَّلَوْ : اگرچہ اَعْجَبَكَ : آپ کو اچھا لگے حُسْنُهُنَّ : ان کا حسن اِلَّا : سوائے مَا مَلَكَتْ يَمِيْنُكَ ۭ : جس کا مالک ہو تمہارا ہاتھ (کنیزیں) وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے رَّقِيْبًا : نگہبان
حلال نہیں تجھ کو عورتیں اس کے بعد اور نہ یہ کہ ان کے بدلے کرلے اور عورتیں اگرچہ خوش لگے تجھ کو ان کی صورت مگر جو مال ہو تیرے ہاتھ کا اور ہے اللہ ہر چیز پر نگہبان۔
رسول اللہ ﷺ کی زاہدانہ زندگی اور اس کے ساتھ تعدد ازواج کا مسئلہ
اعداء اسلام نے ہمیشہ مسئلہ تعدد ازواج اور خصوصاً رسول اللہ ﷺ کی کثرت ازواج کو اسلام کی مخالفت میں موضوع بحث بنایا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کی پوری زندگی کو سامنے رکھا جائے تو کسی شیطان کو بھی شان رسالت کے خلاف وسوسہ پیدا کرنے کی گنجائش نہیں رہتی۔ جس سے ثابت ہے کہ آپ نے سب سے پہلا نکاح پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے کیا، جو بیوہ سن رسیدہ صاحب اولاد اور دو شوہروں کے نکاح میں رہنے کے بعد آئی تھیں، اور پچاس سال کی عمر تک صرف اسی ایک سن رسیدہ بیوی کے ساتھ شباب کا پورا زمانہ گزارا۔ یہ پچاس سالہ دور عمر مکہ کے لوگوں کے سامنے گزرا۔ چالیس سال کی عمر میں اعلان نبوت کے بعد شہر میں آپ کی مخالفت شروع ہوئی، اور مخالفین نے آپ کے ستانے اور آپ پر عیب لگانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، ساحر کہا، شاعر کہا، مجنون کہا، مگر کبھی کسی دشمن کو بھی آپ کی طرف کوئی ایسی چیز منسوب کرنے کا موقع نہیں مل سکا، جو تقویٰ و شہارت کو مشکوک کرسکے۔
پچاس سال عمر شریف کے گزرنے اور حضرت خدیجہ کی وفات کے بعد حضرت سودہ نکاح میں آئیں یہ بھی بیوہ تھیں۔
ہجرت مدینہ اور عمرشریف چون سال ہوجانے کے بعد 2 ہجری میں حضرت صدیقہ عائشہ کی رخصتی آنحضرت ﷺ کے گھر میں ہوئی۔ اس کے ایک سال بعد حضرت حفصہ سے اور کچھ دنوں کے بعد حضرت زنیب بنت خزیمہ سے نکاح ہوا۔ یہ حضرت زینب چند ماہ کے بعد وفات پا گئیں۔ 4 ہجری میں حضرت ام سلمہ جو صاحب اولاد بیوہ تھیں آپ کے نکاح میں آئیں۔ 5 ہجری میں حضرت زینب بنت جحش سے بحکم خداوندی نکاح ہوا، جس کا ذکر سورة احزاب کے شروع میں آ چکا ہے۔ اس وقت آپ کی عمر شریف اٹھاون سال تھی۔ آخری پانچ سال میں باقی ازواج مطہرات آپ کے حرم میں داخل ہوئیں۔ پیغمبر کی خانگی زندگی اور گھریلو معاملات سے متعلق احکام دین کا ایک بہت بڑا حصہ ہوتے ہیں۔ ان نو ازواج مطہرات سے جس قدر دین کی اشاعت ہوئی اس کا اندازہ صرف اس سے ہوسکتا ہے کہ صرف حضرت صدیقہ عائشہ سے دو ہزار دو سو دس احادیث اور حضرت ام سلمہ سے تین سو اڑسٹھ احادیث کی روایت معتبر کتب حدیث میں جمع ہیں۔ حضرت ام سلمہ نے جو احکام و فتاویٰ لوگوں کو بتلائے ان کے متعلق حافظ ابن قیم نے اعلام الموقعین میں لکھا ہے کہ اگر ان کو جمع کرلیا جائے تو ایک مستقل کتاب بن جائے، دو سو سے زیادہ حضرات صحابہ حضرت صدیقہ عائشہ کے شاگرد ہیں، جنہوں نے حدیث اور فقہ و فتاویٰ ان سے سیکھے ہیں۔
اور بہت سی ازواج کو حرم نبوی میں داخل کرنے میں ان کے خاندان کو اسلام کی طرف لانے کی حکمت بھی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی زندگی کے اس اجمالی نقشہ کو سامنے رکھیں تو کیا کسی کو یہ کہنے کی گنجائش رہ سکتی ہے کہ یہ تعدد اور کثرت ازواج معاذ اللہ کسی نفسانی اور جنسی خواہش کی تکمیل کے لئے ہوا تھا، اگر یہ ہوتا تو ساری عمر تجرد یا ایک بیوہ کے ساتھ گزارنے کے بعد عمر کے آخری حصہ کو اس کام کے لئے کیوں منتخب کیا جاتا۔ یہ مضمون پوری تفصیل کے ساتھ، نیز اصل مسئلہ تعدد ازواج پر شرعی اور عقلی، فطری اور اقتصادی حیثیت سے مکمل بحث معارف القرآن جلد دوم سورة نساء کی تیسری آیت کے تحت میں آ چکی ہے وہاں دیکھا جائے۔ (معارف جلد دوم، ص 582 تا 292)۔
ساتواں حکم
(آیت) لا یحل لک النساء من بعد ولا ان تبدل بہن من ازواج ولوا عجبک حسنہن، ”یعنی اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتوں سے نکاح حلال نہیں، اور یہ بھی حلال نہیں کہ موجودہ ازواج میں سے کسی کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری بدلیں“
اس آیت میں لفظ من بعد کی دو تفسیریں ہو سکتی ہیں، ایک یہ کہ من بعد سے مراد یہ ہو کہ بعد ان نو عورتوں کے جو اس وقت آپ کے نکاح میں ہیں، اور کسی سے آپ کا نکاح حلال نہیں، بعض صحابہ اور آئمہ تفسیر سے بھی یہی تفسیر منقول ہے، جیسا کہ حضرت انس نے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو اختیار دیا کہ دنیا طلبی کے لئے آپ سے جدائی اختیار کریں یا پھر تنگی و فراخی جو کچھ پیش آئے اس پر قناعت کر کے آپ کی زوجیت میں رہیں، تو سب ازواج مطہرات نے اپنے نفقہ کی زیادتی کے مطالبہ کو چھوڑ کر اسی حال میں زوجیت کے اندر رہنا اختیار کیا تو اس پر بطور انعام کے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذات گرامی کو بھی انہی نو ازواج کے لئے مخصوص کردیا، ان کے سوا کسی سے نکاح جائز نہ رہا۔ (رواہ البیہقی فی سننہ کذا فی الروح)
اور حضرت ابن عباس نے فرمایا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات کو آپ کے لئے مخصوص فرما دیا کہ آپ کے بعد بھی وہ کسی سے نکاح نہیں کرسکتیں، اسی طرح آپ کو بھی ان کے لئے مخصوص فرما دیا کہ آپ ان کے علاوہ اور کوئی نکاح نہیں کرسکتے۔ حضرت عکرمہ سے بھی ایک روایت میں یہ تفسیر منقول ہے۔
اور حضرت عکرمہ، ابن عباس اور مجاہد آئمہ تفسیر سے ایک روایت میں لفظ من بعد کی یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ من بعد الاصناف المذکورة، یعنی شروع آیت میں آپ کے لئے جتنی اقسام عورتوں کی حلال کی گئی ہیں، اس کے بعد یعنی ان کے سوا کسی اور قسم کی عورتوں سے آپ کا نکاح حلال نہیں۔ مثلاً شروع آیت میں اپنے خاندان کی عورتوں میں سے صرف وہ حلال کی گئیں جنہوں نے مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کرنے میں آپ کی موافقت کی تھی، خاندان کی عورتوں میں غیر مہاجرات سے آپ کا نکاح حلال نہیں رکھا گیا۔ اسی طرح مومنہ کی قید لگا کر آپ کے لئے اہل کتاب کی عورتوں سے نکاح ناجائز قرار دے دیا گیا۔ تو آیت کے جملہ من بعد کا مطلب یہ ہے کہ جتنی قسمیں آپ کے لئے حلال کردی گئی ہیں صرف انہی میں سے آپ کا نکاح ہوسکتا ہے، عام عورتوں میں تو مسلمان ہونا ہی شرط ہے اور خاندان کی عورتوں میں مسلمان ہونے کے ساتھ مہاجرہ ہونا بھی شرط ہے۔ جن میں یہ دو شرطیں موجود نہ ہوں، ان سے آپ کا نکاح حلال نہیں۔ اس تفسیر کے مطابق یہ جملہ کوئی نیا حکم نہیں، بلکہ پہلے ہی حکم کی تاکید و توضیح ہے، جو شروع آیت میں بیان ہوا ہے۔ اور اس آیت کی وجہ سے نو کے بعد کسی اور عورت سے نکاح حرام نہیں کیا گیا، بلکہ غیر مومنہ اور خاندان کی غیر مہاجرہ سے نکاح ممنوع ہوا ہے، جو پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے، باقی عورتوں سے مزید نکاح آپ کے اختیار میں رہا۔ حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت سے بھی اس دوسری تفسیر کی تائید ہوتی ہے، کہ آپ کیلئے مزید نکاح کرنے کی اجازت رہی ہے۔ واللہ اعلم۔
(آیت) ولا ان تبدل بہن من ازواج، آیت مذکورہ کی اگر دوسری تفسیر اختیار کی جائے تو اس جملے کا مطلب واضح ہے کہ اگرچہ آپ کو موجودہ ازواج کے علاوہ دوسری عورتوں سے نکاح بشرائط مذکورہ جائز ہے، مگر یہ جائز نہیں کہ ایک کو طلاق دے کر اس کی جگہ دوسری کو بدلیں یعنی خالص تبدیلی کی نیت سے کوئی نکاح جائز نہیں، بغیر لحاظ و نیت تبدیلی کے جتنے چاہیں نکاح کرسکتے ہیں۔
اور اگر آیت مذکورہ کی پہلی تفسیر مراد لی جائے تو معنی یہ ہوں گے کہ آئندہ نہ کسی عورت کا اضافہ موجودہ ازواج میں آپ کرسکتے ہیں، اور نہ کسی کی تبدیلی کرسکتے ہیں، کہ اسے طلاق دے کر اس کے قائم مقام کسی اور عورت سے نکاح کرلیں۔ واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔
Top