Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 58
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يُؤْذُوْنَ : ایذا دیتے ہیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مرد (جمع) وَالْمُؤْمِنٰتِ : اور مومن عورتیں بِغَيْرِ : بغیر مَا اكْتَسَبُوْا : کہ انہوں نے کمایا (کیا) فَقَدِ احْتَمَلُوْا : البتہ انہوں نے اٹھایا بُهْتَانًا : بہتان وَّاِثْمًا : اور گناہ مُّبِيْنًا : صریح
اور جو لوگ تہمت لگاتے ہیں مسلمان مردوں کو اور مسلمان عورتوں کو بدون گناہ کئے تو اٹھایا انہوں نے بوجھ جھوٹ کا اور صریح گناہ کا۔
معارف و مسائل
سابقہ آیات میں مسلمانوں کو ان چیزوں پر تنبیہ کی گئی تھی جن سے رسول اللہ ﷺ کو ایذا و تکلیف پہنچتی تھی، مگر کچھ مسلمان ناواقفیت یا بےتوجہی کی وجہ سے بلاقصد ایذاء اس میں مبتلا ہوجاتے تھے، جیسا کہ آپ کے بیوت میں بلا دعوت چلے جانا یا دعوت کے وقت سے پہلے آ کر بیٹھ جانا یا کھانے کے بعد آپ کے گھر میں باہمی بات چیت میں مشغول ہو کر دیر لگانا وغیرہ جس پر (آیت) یایہا الذین امنوا لا تدخلوا بیوت النبی الآیہ میں تنبیہ کی گئی ہے۔ یہ وہ ایذاء تھی جو بلاقصد و ارادہ غفلت سے پہنچ جاتی تھی، اس پر تو صرف تنبیہ کردینا کافی سمجھا گیا۔ مذکور الصدر دو آیتوں میں اس ایذاء و تکلیف کا ذکر ہے جو مخالفین اسلام کفار و منافقین کی طرف سے قصداً آپ کو پہنچائی جاتی تھی۔ اسی لئے خلاصہ تفسیر میں یہاں قصداً کا لفظ بڑھایا ہے، جس میں جسمانی ایذائیں بھی داخل ہیں، جو مختلف اوقات میں کفار کے ہاتھوں آپ کو پہنچتی ہیں اور روحانی ایذائیں بھی جو آپ پر طعن وتشنیع اور ازواج مطہرات پر بہتان تراشی کے ذریعہ پہنچائی گئیں۔ اس بالارادہ ایذاء پہنچانے پر لعنت اور عذاب شدید کی وعید بھی آیت مذکورہ میں آتی ہے۔
اس آیت کے شروع میں جو یہ ارشاد ہوا کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کو ایذاء پہنچاتے ہیں اس میں ایذاء پہنچانے سے مراد وہ افعال و اقوال ہیں جو عادتاً ایذاء کا سبب بنا کرتے ہیں۔ اگرچہ حق تعالیٰ کی ذات پاک ہر تاثر وانفعال سے بالاتر ہے کسی کی مجال ہی نہیں کہ اس تک کوئی تکلیف پہنچا سکے، لیکن ایسے افعال جن سے عادتاً ایذاء پہنچا کرتی ہے ان کو ایذاء اللہ سے تعبیر کردیا گیا ہے۔
اس میں ائمہ تفسیر کا اختلاف ہے کہ یہاں پر اللہ کو ایذاء دینے سے کیا مراد ہے ؟ بعض ائمہ تفسیر نے ان افعال و اقوال کو اس کا مصداق ٹھہرایا ہے، جن کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کی زبانی احادیث میں بتلایا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ایذاء کا سبب ہیں، مثلاً حوادث و مصائب کے وقت زمانہ کو برا کہنا کہ درحقیقت فاعل حقیقی حق تعالیٰ ہے، یہ لوگ زمانہ کو فاعل سمجھ کر گالیاں دیتے تھے تو درحقیقت وہ فاعل حقیقی تک پہنچتی تھیں۔ اور بعض روایات میں ہے کہ جان دار چیزوں کی تصویریں بنانا اللہ تعالیٰ کی ایذاء کا سبب ہے۔ تو آیت میں اللہ کو ایذاء دینے سے مراد یہ اقوال یا افعال ہوئے۔
اور دوسرے ائمہ تفسیر نے فرمایا کہ یہاں درحقیقت رسول اللہ ﷺ کی ایذاء سے روکنا اور اس پر وعید کرنا مقصود ہے۔ مگر آیت میں ایذاء رسول کو ایذا حق تعالیٰ کے عنوان سے تعبیر کردیا گیا، کیونکہ آپ کو ایذا پہنچانا درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کو ایذاء پہنچانا ہے، جیسا کہ حدیث میں آگے آتا ہے۔ اور قرآن کے سیاق وسباق سے بھی ترجیح اس دوسری قول کی معلوم ہوتی ہے کیونکہ پہلے بھی ایذاء رسول کا بیان تھا اور آگے بھی اسی کا بیان آ رہا ہے، اور رسول اللہ ﷺ کی ایذاء کا اللہ تعالیٰ کے لئے ایذاء ہونا حضرت عبدالرحمن بن مغفل مزنی کی روایت سے ثابت ہے کہ
”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو اللہ سے ڈرو ان کو میرے بعد اپنی اعتراضات و تنقیدات کا نشانہ نہ بناؤ، کیونکہ ان سے جس نے محبت کی، میری محبت کی وجہ سے کی اور جس نے بغض رکھا میرے بغض کی وجہ سے رکھا، اور جس نے ان کو ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء دی اور جس نے مجھے ایذاء دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سے گرفت کرے گا“
اس حدیث سے جیسا یہ معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی ایذاء سے اللہ تعالیٰ کی ایذاء ہوتی ہے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوا کہ صحابہ اکرام میں سے کسی کو ایذا پہنچانا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا رسول اللہ ﷺ کی ایذاء ہے۔
اس آیت کے شان نزول کے متعلق متعدد روایات ہیں، بعض میں ہے کہ یہ حضرت صدیقہ عائشہ پر بہتان لگانے کے متعلق نازل ہوئی ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ جس زمانہ میں حضرت عائشہ صدیقہ پر بہتان باندھا گیا تو عبداللہ بن ابی منافق کے گھر میں کچھ لوگ جمع ہوئے اور اس بہتان کو پھیلانے چلتا کرنے کی باتیں کرتے تھے۔ اس وقت رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے اس کی شکایت فرمائی کہ یہ شخص مجھے ایذاء پہنچاتا ہے۔ (مظہری)
بعض روایات میں ہے کہ حضرت صفیہ سے نکاح کے وقت کچھ منافین نے طعن کیا اس کے متعلق نازل ہوئی۔ اور صحیح بات یہی ہے کہ یہ آیت ہر ایسے معاملہ کے متعلق نازل ہوئی ہے جس سے رسول اللہ ﷺ کو اذیت پہنچے۔ اس میں صدیقہ عائشہ پر بہتان بھی داخل ہے اور حضرت صفیہ اور زینب کے نکاحوں پر طعن وتشنیع بھی شامل ہے دوسرے صحابہ کرام کو برا کہنا اور ان پر تبرا کرنا بھی داخل ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو کسی طرح کی ایذاء پہنچانا کفر ہے
مسئلہ
جو شخص رسول اللہ ﷺ کو کسی طرح کی ایذاء پہنچائے، آپ کی ذات باصفات میں کوئی عیب نکالے خواہ صراحتا ہو یا کنایةً وہ کافر ہوگیا، اور اس آیت کی رو سے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت دنیا میں بھی ہوگی اور آخرت میں بھی (کذا قال القاضی ثناء اللہ فی التفسیر المظہری)
دوسری آیت میں عام مومنین کو ایذاء پہنچانے کے حرام اور بہتان عظیم ہونے کو بیان کیا ہے جبکہ وہ شرعاً اس کے مستحق نہ ہوں۔ عام مومنین میں یہ قید اس لئے لگائی کہ ان میں دونوں صورتیں ہو سکتی ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ کسی نے کوئی ایسا کام کیا ہے جس کے بدلے میں اس کو ایذاء دینا شرعاً جائز ہے، اور پہلی آیت میں چونکہ معاملہ اللہ و رسول کی ایذا کا تھا اس میں کوئی قید نہیں لگائی، اس لئے کہ وہاں جائز ہونے کا کوئی احتمال ہی نہیں۔
کسی مسلمان کو بغیر وجہ شرعی دکھ پہنچانا حرام ہے
مذکورہ آیت میں الذین یوذون المومنین (الیٰ) بہتاناً عظیماً ، کسی مسلمان کو بغیر وجہ شرعی کے کسی قسم کی ایذاء اور دکھ پہنچانے کی حرمت ثابت ہوئی، اور رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
”مسلمان تو صرف وہ آدمی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے سب مسلمان محفوظ ہوں، کسی کو تکلیف نہ پہنچے، اور مومن تو صرف وہی ہے جس سے لوگ اپنے خون اور مال کے معاملہ میں محفوظ ومامون ہوں“
Top