Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 61
مَّلْعُوْنِیْنَ١ۛۚ اَیْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَ قُتِّلُوْا تَقْتِیْلًا
مَّلْعُوْنِيْنَ ڔ : پھٹکارے ہوئے اَيْنَمَا : جہاں کہیں ثُقِفُوْٓا : وہ پائے جائیں گے اُخِذُوْا : پکڑے جائیں گے وَقُتِّلُوْا : اور مارے جائیں گے تَقْتِيْلًا : بری طرح مارا جانا
پھٹکارے ہوئے جہاں پائے گئے پکڑے گئے اور مارے گئے جان سے
جو شخص مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہوجائے اس کی سزا قتل ہے
آیت مذکورہ میں منافقین کی دو شرارتوں کا ذکر کے ان سے باز نہ آنے کی صورت میں جس سزا کا ذکر کیا گیا ہے کہ (آیت) ملعونین اینما اخذوا وقتلوا تقتیلا، ”یعنی یہ لوگ جہاں رہیں گے لعنت اور پھٹکار ان کے ساتھ ہوگی، اور جہاں ملیں گے گرفتار کئے جائیں گے اور قتل کردیئے جائیں گے۔“ یہ سزا عام کفار کی نہیں، بیشمار نصوص قرآن و سنت اس پر شاہد ہیں کہ عام کفار کے لئے شریعت اسلام میں یہ قانون نہیں ہے، بلکہ قانون یہ ہے کہ اول ان کو دعوت اسلام دی جائے، ان کے شبہات دور کرنے کی کوشش کی جائے اس پر بھی وہ اسلام نہ لائیں تو مسلمانوں کے تابع ذمی بن کر رہنے کا حکم دیا جائے، اگر وہ اس کو قبول کرلیں تو ان کی جان و مال اور آبرو کی حفاظت مسلمانوں پر مسلمانوں ہی کی طرح فرض ہوجاتی ہے، ہاں جو اس کو بھی قبول نہ کریں اور جنگ پر آمادہ ہوجائیں تو ان کے مقابلہ میں جنگ کرنے کا حکم ہے۔
اس آیت میں ان لوگوں کو مطلقاً قید و قتل کی سزا سنائی گئی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ معاملہ منافقین کا تھا جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے تھے۔ اور جب کوئی مسلمان احکام اسلام کی کھلی مخالفت اور انکار کرنے لگے تو وہ اصطلاح شرع میں مرتد کہلاتا ہے، اس کے ساتھ شریعت اسلام میں کوئی مصالحت نہیں، بجز اس کے کہ وہ تائب ہو کر پھر مسلمان ہوجائے، اور احکام اسلام کو قولاً وعملاً تسلیم کرلے ورنہ پھر اس کو قتل کیا جائے گا جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کے واضح ارشادات اور صحابہ کرام کے اجماعی تعامل سے ثابت ہے۔ مسیلمہ کذاب اور اس کی جماعت کے خلاف باجماع صحابہ جنگ و جہاد اور مسیلمہ کا قتل اس کی کافی شہادت ہے، اور آخر آیت میں اس کو اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت و دستور قرار دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ انبیاء سابقین کی شرائع میں بھی مرتد کی سزا قتل ہی تھی۔
مذکور الصدر خلاصہ تفسیر میں ان سزاؤں کو عام کفار کے ضابطہ میں لانے کے لئے جو توجیہ کی گئی ہے اس تقریر سے اس کی ضرورت نہیں رہتی۔
چند مسائل
اس آیت سے یہ ثابت ہوا کہ
(1) عورتوں کو جب کسی ضرورت کی بنا پر گھر سے نکلنا پڑے تو لمبی چادر سے تمام بدن چھپا کر نکلیں، اور اس چادر کو سر کے اوپر سے لٹکا کر چہرہ بھی چھپا کر چلیں، مروجہ برقع بھی اس کے قائم مقام ہے۔
(2) مسلمانوں میں ایسی افواہیں پھیلانا حرام ہے جن سے ان کو تشویش اور پریشانی ہو اور نقصان پہنچے۔
Top