Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 69
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اٰذَوْا مُوْسٰى فَبَرَّاَهُ اللّٰهُ مِمَّا قَالُوْا١ؕ وَ كَانَ عِنْدَ اللّٰهِ وَجِیْهًاؕ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والو لَا تَكُوْنُوْا : تم نہ ہونا كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اٰذَوْا : انہوں نے ستایا مُوْسٰى : موسیٰ فَبَرَّاَهُ : تو بری کردیا اس کو اللّٰهُ : اللہ مِمَّا : اس سے جو قَالُوْا ۭ : انہوں نے کہا وَكَانَ : اور وہ تھے عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک وَجِيْهًا : باآبرو
اے ایمان والو ! تم مت ہو ان جیسے جنہوں نے ستایا موسیٰ کو پھر بےعیب دکھلایا اس کو اللہ نے ان کے کہنے سے اور تھا اللہ کے یہاں آبرو والا
خلاصہ تفسیر
اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح مت ہونا جنہوں نے (کچھ تہمت تراش کر) موسیٰ ؑ کو ایذاء دی تھی سو ان کو خدا تعالیٰ نے بری ثابت کردیا اس چیز سے جو وہ کہتے تھے (یعنی ان کو تو کچھ نقصان نہ پہنچا تہمت لگانے والے ہی کذاب اور مستحق سزا ٹھہرے) اور وہ (یعنی موسیٰ علیہ السلام) اللہ کے نزدیک بڑے معزز (پیغمبر) تھے (اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت ظاہر فرما دی جیسا کہ دوسرے انبیاء (علیہم السلام) کے لئے اس طرح کی تہمتوں سے برات عام ہے۔ مطلب یہ ہے کہ تم رسول کی مخالفت کر کے ان کو ایذاء نہ دینا کیونکہ ان کی مخالفت اللہ کی مخالفت ہے، ورنہ اس کے نتیجہ میں تم خود اپنا ہی نقصان کرلو گے اس لئے ہر کام میں اللہ و رسول کی اطاعت کرنا جس کا حکم آگے آتا ہے کہ) اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو (یعنی ہر امر میں اس کی اطاعت کرو) اور (بالخصوص کلام کرنے میں اس کی بہت رعایت رکھو کہ جب بات کرو) راستی کی بات کرو (جس میں عدل و اعتدال سے تجاوز نہ ہو) اللہ تعالیٰ (اس کے صلہ میں) تمہارے اعمال کو قبول کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا (کچھ ان اعمال کی برکت سے کچھ توبہ کی برکت سے جو تقویٰ اور قول سدید میں داخل ہے) اور (یہ ثمرات اطاعت کے ہیں اور اطاعت ایسی چیز ہے کہ) جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا تو وہ بڑی کامیابی کو پہنچے گا۔

معارف و مسائل
اس سے پہلی آیات میں اللہ و رسول کی ایذا کا مہلک اور خطرناک ہونا بیان کیا گیا تھا اس آیت میں خاص طور سے مسلمانوں کو اللہ و رسول کی مخالفت سے بچنے کی ہدایت کی ہے، کیونکہ یہ مخالفت ان کی ایذا کا سبب ہے۔
پہلی آیت میں ایک واقعہ حضرت موسیٰ ؑ کا جس میں ان کی قوم نے ان کو ایذا پہنچائی تھی ذکر کر کے مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ مسلمانوں سے کوئی ایسا کام سرزد ہوا ہو بلکہ حفظ ماتقدم کے طور پر ان کو یہ قصہ سنا کر ہدایت کی گئی ہے۔ اور ایک روایت میں جو قصہ بعض صحابہ کا منقول ہے اس کا محمل بھی یہی ہے کہ ان کو اس وقت اس طرف توجہ نہ ہوئی ہوگی کہ یہ کلمہ آنحضرت ﷺ کی ایذا کا موجب ہے، بالقصد ایذا پہنچانے کا کسی صحابی سے امکان نہیں، جتنے قصے بالقصد ایذا کے ہیں وہ سب منافقین کے ہیں۔ اور موسیٰ ؑ کا قصہ خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرما کر اس آیت کی تفسیر بیان فرما دی ہے جس کو امام بخاری نے کتاب التفیسر اور کتاب الانبیاء میں حضرت ابوہریرہ سے روایت فرمایا ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ بہت حیا کرنے والے اور اپنے بدن کو چھپانے والے تھے، ان کے بدن کو کوئی نہ دیکھتا تھا، جب غسل کی ضرورت ہوتی تو پردہ کے اندر غسل کرتے تھے، ان کی قوم بنی اسرائیل میں عام طور پر یہ رواج تھا کہ مرد سب کے سامنے ننگے ہو کر نہاتے تھے، تو بعض بنی اسرائیل کہنے لگے کہ موسیٰ ؑ جو کسی کے سامنے نہیں نہاتے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کے بدن میں کوئی عیب ہے، یا تو برص ہے یا خصیتین بہت بڑھے ہوئے ہیں، یا کوئی اور آفت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ موسیٰ ؑ کی اس طرح کے عیوب سے برات کا اظہار فرما دیں۔ ایک روز موسیٰ ؑ خلوت میں غسل کرنے کے لئے اپنے کپڑے اتار کر ایک پتھر پر رکھ دیئے، جب غسل سے فارغ ہو کر اپنے کپڑے لینے چاہے تو یہ پتھر (بحکم خداوندی حرکت میں آگیا) اور کپڑے لے کر بھاگنے لگا۔ موسیٰ ؑ اپنی لاٹھی اٹھا کر پتھر کے پیچھے یہ کہتے ہوئے چلے ثوبی حجر ثوبی حجر، ”یعنی اے پتھر میرے کپڑے، اے پتھر میرے کپڑے“ مگر پتھر چلتا رہا یہاں تک کہ یہ پتھر ایسی جگہ جا کر ٹھہرا جہاں بنی اسرائیل کا ایک مجمع تھا، اس وقت بنی اسرائیل نے موسیٰ ؑ کو سر سے پاؤں تک ننگا دیکھا تو بہترین صحیح وسالم بدن دیکھا (جس میں ان کا منسوب کیا ہوا کوئی عیب نہ تھا) اس طرح اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کی برات ان عیوب سے ان سب کے سامنے ظاہر فرما دی۔ پتھر یہاں پہنچ کر ٹھہر گیا تھا، موسیٰ ؑ نے اپنے کپڑے اٹھا کر پہن لئے، پھر موسیٰ ؑ نے پتھر کو لاٹھی سے مارنا شروع کیا۔ خدا کی قسم ! اس پتھر میں موسیٰ ؑ کی ضرب سے تین یا چار یا پانچ اثر قائم ہوگئے۔
یہ واقعہ بیان فرما کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ قرآن کی اس آیت کا یہی مطلب ہے۔ یعنی آیت مذکورہ (آیت) کالذین اذواموسیٰ۔ کا آیت مذکورہ میں موسیٰ ؑ کی جس ایذا کا ذکر ہے اس کی تفسیر اس قصہ میں خود رسول کریم ﷺ سے منقول ہے۔ بعض صحابہ کرام سے ایذا موسیٰ ؑ کا ایک قصہ اور بھی مشہور ہے۔ وہ بھی اس کے ساتھ ضرور ملحق ہے۔ مگر تفسیر آیت وہی راجح ہے جو مرفوع حدیث میں موجود ہے۔
(آیت) وکان عند اللہ وجیہاً ”یعنی تھے موسیٰ ؑ اللہ کے نزدیک صاحب وجاہت“ اللہ کے نزدیک کسی کی وجاہت اور جاہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو قبول فرمائیں اس کی خواہش کو رد نہ کریں۔ چناچہ موسیٰ ؑ کا مستجاب الدعوات ہونا قرآن میں ان واقعات کثیرہ سے ثابت ہے جن میں انہوں نے کسی چیز کی دعا مانگی اللہ تعالیٰ نے اسی طرح قبول فرمایا۔ ان میں سب سے زیادہ عجیب یہ ہے کہ ہارون ؑ کو پیغمبر بنانے کی دعا کی، اللہ تعالیٰ نے قبول فرما کر ان کو موسیٰ ؑ کے ساتھ شریک رسالت بنادیا، حالانکہ منصب نبوت کسی کو کسی کی سفارش پر نہیں دیا جاتا۔ (ابن کثیر)
Top