Maarif-ul-Quran - Al-Ahzaab : 73
لِّیُعَذِّبَ اللّٰهُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتِ وَ الْمُشْرِكِیْنَ وَ الْمُشْرِكٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا۠   ۧ
لِّيُعَذِّبَ اللّٰهُ : تاکہ اللہ عذاب دے الْمُنٰفِقِيْنَ : منافق مردوں وَالْمُنٰفِقٰتِ : اور منافق عورتوں وَالْمُشْرِكِيْنَ : اور مشرک مردوں وَالْمُشْرِكٰتِ : اور مشرک عورتوں وَيَتُوْبَ : اور توبہ قبول کرے اللّٰهُ : اللہ عَلَي : پر۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن مردوں وَالْمُؤْمِنٰتِ ۭ : اور مومن عورتوں وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ غَفُوْرًا : بخشنے والا رَّحِيْمًا : مہربان
تاکہ عذاب کرے اللہ منافق مردوں کو اور عورتوں کو اور شرک کرنے والے مردوں کو اور عورتوں کو اور معاف کرے اللہ ایمان دار مردوں کو اور عورتوں کو اور ہے اللہ بخشنے والا مہربان۔
(آیت) لیعذب اللہ المنفقین والمنفقت الآیة، ”یعنی تاآنکہ عذاب دے گا اللہ تعالیٰ منافق مردوں اور منافق عورتوں کو، اور مشرکین مردوں اور عورتوں کو، اور رحمت و مغفرت سے نوازے گا مومنین و مومنات کو“ لیعذب میں حرف لام بیان علت و غرض کے لئے نہیں بلکہ اصطلاح عربیت کے لحاظ سے لام عاقبت ہے۔ یعنی جو کسی چیز کا انجام بیان کرے جیسے ایک عربی شعر میں ہے لدو اللموت وابنو اللخراب۔ ”یعنی پیدا ہو موت کے لئے اور تعمیر کرو ویران ہونے کے لئے“ مراد یہ ہے کہ ہر پیدا ہونے والے کا انجام موت اور ہر تعمیر کا انجام ویرانی ہے۔
اس جملے کا تعلق حملہا الانسان سے ہے، یعنی انسان کے بار امانت اٹھانے کا انجام یہ ہوگا کہ نوع انسانی میں دو فریق ہوجائیں گے، ایک کفار و منافق وغیرہ جو اطاعت الٰہیہ سے سرکش ہو کر امانت کے ضائع کرنے والے ہوگئے، ان کو عذاب دیا جائے گا، دوسرے مومنین و مومنات جو اطاعت احکام شرعیہ کے ذریعہ حق امانت ادا کرچکے، ان کے ساتھ رحمت و مغفرت کا معاملہ ہوگا۔
اس آخری جملے میں بھی ظلوم وجہول کے الفاظ کی اس تفسیر کی تائید ہوئی جو اکثر ائمہ تفسیر سے اوپر نقل کی گئی ہے، کہ یہ تمام نوع انسانی کے لئے نہیں بلکہ خاص ان افراد کے لئے ہے جنہوں نے امانت الہیہ کو ضائع کیا۔ واللہ سبحانہ، وتعالیٰ اعلم۔
تمت
سورة الاحزاب بعونہ تعالیٰ و حمدہ للعشرین من محرم الحرام 1392 ھ یوم الثلثاء
Top