Ruh-ul-Quran - Al-Hijr : 23
وَ مَا یَسْتَوِی الْاَحْیَآءُ وَ لَا الْاَمْوَاتُ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ یُسْمِعُ مَنْ یَّشَآءُ١ۚ وَ مَاۤ اَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَّنْ فِی الْقُبُوْرِ
وَمَا يَسْتَوِي : اور نہیں برابر الْاَحْيَآءُ : زندے وَلَا : اور نہ الْاَمْوَاتُ ۭ : مردے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ يُسْمِعُ : سنا دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ ۚ : جس کو وہ چاہتا ہے وَمَآ اَنْتَ : اور تم نہیں بِمُسْمِعٍ : سنانے والے مَّنْ : جو فِي الْقُبُوْرِ : قبروں میں
اور برابر نہیں جیتے اور نہ مردے۔ اللہ سناتا ہے جس کو چاہے اور تو نہیں سنانے والا قبر میں پڑے ہوؤں کو
(آیت) وما انت بمسمع من فی القبور، اس آیت کے شروع میں کفار کی مثال مردوں سے اور مومنین کی زندوں سے دی گئی ہے۔ اسی کی مناسبت سے یہاں من فی القبور سے مراد کفار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے ان زندہ کافروں کو بھی نہیں سنا سکتے۔
اس آیت نے خود یہ بات واضح کردی کہ یہاں سنانے سے مراد وہ سنانا ہے جو مفید وموثر اور نافع ہو، ورنہ مطلق سنانا تو کفار کو ہمیشہ ہوتا ہی رہا، اور مشاہدہ میں آتا رہا ہے کہ ان کو تبلیغ کرتے اور وہ سنتے تھے۔ اس لئے مراد اس آیت کی یہ ہے کہ جس طرح آپ مردوں کو کلام حق سنا کر راہ حق پر نہیں لا سکتے کیونکہ وہ دنیا کے دارالعمل سے آخرت کے دار الجزاء میں منتقل ہوچکے ہیں، وہاں اگر وہ ایمان کا اقرار بھی کرلیں تو معتبر نہیں، اسی طرح کفار کا حال ہے اس سے ثابت ہوا کہ مردوں کے سنانے کی جو نفی اس آیت میں کی گئی ہے اس سے مراد خاص اسماع نافع ہے جس کی وجہ سے سننے والا باطل کو چھوڑ کر حق پر آجائے۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ مسئلہ سماع مولیٰ سے اس آیت کا کوئی تعلق نہیں، یہ مسئلہ اپنی جگہ مستقل ہے کہ مردے زندوں کا کلام سنتے ہیں یا نہیں۔ اس کی مفصل تحقیق سورة روم میں اور سورة نمل میں گزر چکی ہے۔
Top