Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Faatir : 32
ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَا١ۚ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ وَ مِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ١ۚ وَ مِنْهُمْ سَابِقٌۢ بِالْخَیْرٰتِ بِاِذْنِ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِیْرُؕ
ثُمَّ
: پھر
اَوْرَثْنَا
: ہم نے وارث بنایا
الْكِتٰبَ
: کتاب
الَّذِيْنَ
: وہ جنہیں
اصْطَفَيْنَا
: ہم نے چنا
مِنْ
: سے۔ کو
عِبَادِنَا ۚ
: اپنے بندے
فَمِنْهُمْ
: پس ان سے (کوئی)
ظَالِمٌ
: ظلم کرنے والا
لِّنَفْسِهٖ ۚ
: اپنی جان پر
وَمِنْهُمْ
: اور ان سے (کوئی)
مُّقْتَصِدٌ ۚ
: میانہ رو
وَمِنْهُمْ
: اور ان سے (کوئی)
سَابِقٌۢ
: سبقت لے جانے والا
بِالْخَيْرٰتِ
: نیکیوں میں
بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ
: حکم سے اللہ کے
ذٰلِكَ
: یہ
هُوَ
: وہ (یہی)
الْفَضْلُ
: فضل
الْكَبِيْرُ
: بڑا
پھر ہم نے وارث کئے کتاب کے وہ لوگ جن کو چن لیا ہم نے اپنے بندوں میں سے پھر کوئی ان میں برا کرتا ہے اپنی جان کا اور کوئی ان میں ہے بیچ کی چال پر اور کوئی ان میں آگے بڑھ گیا ہے لے کر خوبیاں اللہ کے حکم سے یہی ہے بڑی بزرگی
ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا من عبادنا، حرف ثم عطف کے لئے آتا ہے، اور اس پر دلالت کرتا ہے کہ اس حرف سے پہلے اور بعد کی دونوں چیزیں اصل وصف میں مشترک ہونے کے باوجود تقدیم و تاخیر رکھتی ہیں۔ پہلی چیز مقدم اور بعد کی چیز موخر ہوتی ہے، پھر یہ تقدیم و تاخیر کبھی زمانے کے اعتبار سے ہوتی ہے، کبھی رتبہ اور درجہ کے اعتبار سے۔ اس آیت میں حرف ثم عطف ہے اس سے پہلی آیت کے لفظ اوحینا پر، معنی یہ ہیں کہ ہم نے یہ کتاب یعنی قرآن جو خالص حق ہی ہے، اور تمام پہلی آسمانوں کتابوں کی تصدیق کرتا ہے، پہلے بطور وحی آپ کے پاس بھیجی، اس کے بعد ہم نے اس کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنادیا جن کو ہم نے منتخب اور پسند کرلیا ہے اپنے بندوں میں سے۔ یہ اول و آخر اور مقدم و موخر ہونا رتبہ اور درجہ کے اعتبار سے تو ظاہر ہے کہ قرآن کا بذریعہ وحی آپ کے پاس بھیجنا رتبہ اور درجہ میں مقدم ہے اور امت محمدیہ کو عطا فرمانا اس سے موخر ہے۔ اور اگر امت کو وارث قرآن بنانے کا مطلب یہ لیا جائے کہ آپ نے اپنے بعد کے لئے امت کے واسطے زر و زمین کی وراثت چھوٹنے کے بجائے اللہ کی کتاب بطور وراثت چھوڑی، جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی شہادت موجود ہے کہ انبیاء درہم و دینار کی وراثت نہیں چھوڑا کرتے، وہ وراثت میں علم چھوڑتے ہیں اور ایک دوسری حدیث میں علماء کو وارث انبیاء فرمایا ہے، تو اس لحاظ سے یہ تقدیم و تاخیر زمانی بھی ہو سکتی ہے کہ ہم نے یہ کتاب آپ کو عنایت فرمائی ہے پھر آپ نے اس کو امت کے لئے بطور وارث چھوڑا۔ وارث بنانے سے مراد عطا کرنا ہے، اس عطا کو بلفظ میراث تعبیر کرنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح وارث کو میراث کا حصہ بغیر اس کے کسی عمل اور کوشش کے مل جاتا ہے، قرآن کریم کی یہ دولت بھی ان منتخب بندوں کو اسی طرح بغیر کسی محنت و مشقت کے دے دی گئی ہے۔
امت محمدیہ خصوصاً اس کے علماء کی ایک اہم فضیلت و خصوصیت
الذین اصطفینا من عبادنا، یعنی جن کو ہم نے منتخب اور پسندیدہ قرار دے دیا اپنے بندوں میں سے۔ جمہور مفسرین کے نزدیک اس سے مراد امت محمدیہ ہے، اس کے علماء بلاواسطہ اور دوسرے لوگ بواسطہ علماء، علی بن ابی طلحہ نے حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ الذین اصطفینا سے مراد امت محمدیہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ہر اس کتاب کا وارث بنایا ہے جو اس نے اتاری ہے، (یعنی قرآن سب کتب سابقہ کی تصدیق و حفاظت کرنے والی کتاب ہونے کی حیثیت سے تمام آسمانی کتابوں کے مضامین کی جامع ہے، اس کا وارث بننا گویا سب آسمانی کتابوں کا وارث بننا ہے) پھر فرمایا فظالمھم یغفرلہ ومقتصدھم یحاسب حساباً یسیراً وسابقہم یدخل الجنة بغیر حساب، یعنی اس امت کا ظالم بھی بخشا جائے گا اور میانہ روی کرنے والے سے آسان حساب لیا جائے گا، اور سابق بغیر حساب کے جنت میں داخل ہوگا۔ (ابن کثیر)
اس آیت میں لفظ اصطفینا سے امت محمدیہ کی سب سے بڑی عظیم فضیلت ظاہر ہوئی۔ کیونکہ لفظ اصطفاء قرآن کریم میں اکثر انبیاء (علیہم السلام) کے لئے آیا ہے، اللہ یصطفی من الملئکة رسلاً ومن الناس، اور ایک آیت میں ہے (آیت) ان اللہ اصطفیٰ آدم و نوحاً وآل ابراہیم وآل عمران علیٰ العلمین، آیت مذکورہ میں حق تعالیٰ نے امت محمدیہ کو اصطفاء یعنی انتخاب میں انبیاء اور ملائکہ کے ساتھ شریک فرما دیا، اگرچہ اصطفاء کے درجات مختلف ہیں، انبیاء و ملائکہ کا اصطفاء اعلیٰ درجہ میں اور امت محمدیہ کا بعد کے درجہ میں ہے۔
امت محمدیہ کی تین قسمیں
(آیت) فمنہم ظالم لنفسہ ومنہم مقتصد ومنہم سابق بالخیرات، یہ جملہ پہلے جملے کی تفسیر و توضیح ہے۔ یعنی ہم نے اپنے بندوں کو منتخب اور پسند فرما کر ان کو قرآن کا وارث بنایا ہے، ان کی تین قسمیں ہیں، ظالم، مقتصد، سابق۔
ان تینوں قسموں کی تفسیر امام ابن کثیر نے اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ظالم سے مراد وہ آدمی ہے جو بعض واجبات میں کوتاہی کرتا ہے اور بعض محرکات کو بھی ارتکاب کرلیتا ہے اور مقتصد (یعنی درمیانی چال چلنے والا) وہ شخص ہے جو تمام واجبات شرعیہ کو ادا کرتا ہے اور تمام محرمات سے بچتا ہے، مگر بعض اوقات بعض مستحبات کو چھوڑ دیتا ہے اور بعض مکروہات میں بھی مبتلا ہوجاتا ہے۔ اور سابق بالخیرات وہ شخص ہے جو تمام واجبات اور مستحبات کو ادا کرتا ہے، اور تمام محرمات و مکروہات سے بچتا ہے، اور بعض مباحات کو اشتغال عبادت یا شبہ حرمت کی وجہ سے چھوڑ دیتا ہے۔
یہ ابن کثیر کا بیان ہے۔ دوسرے مفسرین نے ان تین قسموں کی تفسیر میں بہت مختلف اقوام نقل کئے ہیں۔ روح المعانی میں بحوالہ تحریر تینتالیس اقوال کا ذکر کیا ہے، مگر غور کیا جائے تو ان میں سے اکثر کا حاصل وہی ہے جو اوپر ابن کثیر کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے۔
ایک شبہ اور جواب
مذکورہ تفسیر سے یہ ثابت ہوا کہ الذین اصطفینا سے مراد امت محمدیہ ہے اور اس کی یہ تین قسمیں ہیں۔ جس سے معلوم ہوا کہ اس کی پہلی قسم یعنی ظالم بھی الذین اصطفینا یعنی اللہ کے منتخب بندوں میں شامل ہیں، اس کو بظاہر مستبعد سمجھ کر بعض لوگوں نے کہا کہ یہ امت محمدیہ اور اصطفینا سے خارج ہے۔ مگر بہت سی احادیث صحیحہ معتبرہ سے ثابت ہے کہ یہ تینوں قسمیں امت محمدیہ کی ہیں اور اصطفینا کے وصف سے خارج نہیں۔ یہ امت محمدیہ کے مومن بندوں کی انتہائی خصوصیت اور فضیلت ہے کہ ان میں جو عملی طور پر ناقص بھی ہیں وہ بھی اس شرف میں داخل ہیں۔ حافظ ابن کثیر نے اس جگہ وہ سب روایات حدیث جمع کردی ہیں۔ ان میں سے بعض یہ ہیں
حضرت ابو سعید خدری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آیت مذکورہ الذین اصطفینا کی تینوں قسموں کے متعلق فرمایا کہ یہ سب ایک ہی مرتبے میں ہیں اور سب جنت میں ہیں۔ (رواہ احمد، ابن کثیر) ایک مرتبہ میں ہونے سے مراد یہ ہے کہ سب کی مغفرت ہوجائے گی اور سب جنت میں جائیں گے، یہ مطلب نہیں کہ درجات کے اعتبار سے ان میں تفاضل نہ ہوگا۔
اور حضرت ابو الدرداء سے باسانید متعددہ ایک حدیث منقول ہے، ابن کثیر نے ان سب کو نقل کیا ہے۔ ان میں سے ایک وہ ہے جو ابن جریر نے ابو ثابت سے نقل کی ہے کہ وہ ایک روز مسجد میں گئے تو وہاں ابو الدرداء پہلے سے بیٹھے تھے۔ ابو ثابت ان کے برابر جا کر بیٹھ گئے اور یہ دعا کرنے لگے، اللہم انس وحشتی وارحم غربتی ویسرلی جلیساً صالحاً ”یعنی یا اللہ میری قلبی وحشت و پریشانی کو دور فرما اور میری حالت مسافرت پر رحم فرما، اور مجھے کوئی جلیس (ہمنشین) صالح نصیب فرما دے“ (یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ سلف صالحین میں جلیس صالح کی طلب و تلاش کا درجہ کیا تھا کہ اس کو اہم مقصد اور سب پریشانیوں کا علاج سمجھ کر اللہ تعالیٰ سے اس کی دعائیں مانگتے تھے) ابو الدرداء نے یہ دعا سنی تو فرمایا کہ اگر آپ اپنی اس دعا و طلب میں سچے ہیں تو میں اس معاملہ میں آپ سے زیادہ خوش نصیب ہوں (مطلب یہ ہے کہ مجھے اللہ نے آپ جیسا جلیس صالح بےمانگے دے دیا) اور فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنی ہے، مگر جب سے میں نے اس کو سنا ہے اب تک کسی سے بیان کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ وہ یہ ہے کہ آپ نے اس آیت کا ذکر فرمایا (آیت) ثم اور ثنا الکتب الذین اصطفینا الآیة، پھر فرمایا کہ ان تین قسموں میں سے جو سابق بالخیرات ہیں وہ تو بےحساب جنت میں جائیں گے اور جو مقتصد یعنی درمیانے ہیں ان سے ہلکا حساب لیا جائے گا، اور ظالم یعنی جو اعمال میں کوتاہی کرنے والے اور گناہوں کی لغزش میں مبتلا ہونے والے ہیں، ان کو اس مقام میں سخت رنج وغم طاری ہوگا، پھر ان کو بھی جنت میں داخلہ کا حکم ہوجائے گا، اور سب رنج و غم دور ہوجائیں گے۔ اسی کا ذکر اگلی آیت میں آیا ہے(آیت) وقالوا الحمد اللہ الذی اذھب عنا الحزن ”یعنی وہ کہیں گے شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارا غم دور کردیا“
اور طبرانی نے حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا وکلہم من ھذہ الامة، یعنی یہ تینوں قسمیں اسی امت محمدیہ میں سے ہوں گی۔
اور ابو داؤد طیالسی نے عقبہ ابن صہبان بنائی سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے ام المومنین حضرت صدیقہ عائشہ سے اس آیت کی تفسیر دریافت کی تو انہوں نے فرمایا، بیٹا یہ تینوں قسمیں جنتی ہیں۔ ان میں سے سابق بالخیرات تو وہ لوگ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گزر گئے، جن کے جنتی ہونے کی شہادت خود رسول اللہ ﷺ نے دے دی اور مقتصد وہ لوگ ہیں جو ان کے نشان قدم پر چلے، اور سابقین کی اقتداء پر قائم رہے یہاں تک کہ ان کے ساتھ مل گئے، باقی رہے ظالم لنفسہ، تو ہم تم جیسے لوگ ہیں۔
یہ صدیقہ عائشہ کی تواضع تھی کہ اپنے آپ کو بھی انہوں نے تیسرے درجہ میں یعنی ظالم لنفسہ میں شمار کیا حالانکہ وہ احادیث صحیحہ کی تصریحات کے مطابق سابقین اولین میں سے ہیں۔
اور ابن جریر نے حضرت محمد بن حنفیہ سے نقل کیا، فرمایا کہ یہ امت امت مرحومہ ہے اس کا ظالم بھی مغفور ہے اور مقتصد یعنی میانہ رو جنت میں ہے، اور سابق بالخیرات اللہ کے نزدیک درجات عالیہ میں ہے۔
اور حضرت محمد بن علی باقر ؓ نے ظالم لنفسہ کی تفسیر میں فرمایا الذین خلط عملاً صالحاً واخر سیئاً ، یعنی وہ شخص جس نے نیک وبد دونوں طرح کے اعمال میں خلط ملط کیا ہو۔
علماء امت محمدیہ کی عظیم الشان فضیلت
اس آیت میں حق تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ ہم نے اپنی کتاب کا وارث ان لوگوں کو بنایا جو ہمارے بندوں میں منتخب اور برگزیدہ ہیں۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کتاب اللہ اور علوم نبوت کے بلاواسطہ وارث حضرات علماء ہیں، جیسا کہ حدیث میں بھی ارشاد ہے العلماء ورثة الانبیاء، حاصل اس کا یہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کے علوم کا مشغلہ اخلاص کے ساتھ نصیب فرمایا یہ اس کی علامت ہے کہ وہ اللہ کے برگزیدہ اولیاء ہیں، جیسا کہ حضرت ثعلب بن الحکم نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے روز علماء امت سے خطاب فرما کر کہیں گے کہ میں نے تمہارے سینوں میں اپنا علم و حکمت صرف اسی لئے رکھا تھا کہ میرا ارادہ یہ تھا کہ تمہاری مغفرت کر دوں عمل تمہارے کیسے بھی ہوں (یہ اوپر معلوم ہوچکا ہے کہ جس شخص میں خشیت اور خوف خدا نہیں وہ علماء کی فہرست ہی سے خارج ہے۔ اس لئے یہ خطاب انہی لوگوں کو ہوگا جو خشیتہ اللہ میں رنگے ہوئے ہوں ان سے یہ ممکن ہی نہیں ہوگا کہ بےفکری سے گناہوں میں ملوث رہیں، ہاں طبیعت بشریہ کے تقاضوں سے کبھی کبھی لغزش ان سے بھی ہوتی ہے۔ اسی کو اسی حدیث میں فرمایا کہ عمل تمہارے کیسے بھی ہوں تمہارے لئے مغفرت مقدر ہے۔
یہ سب روایات تفسیر ابن کثیر سے لی گئی ہیں، اور آخری حدیث میں جو حضرت ثعلبہ سے روایت کی گئی ہے اس کو طبرانی نے بھی روایت کیا ہے، جس کی سند کے سب رجال ثقاة ہیں۔ (تفسیر مظری) اور تفسیر مظہری میں بحوالہ ابن عساکر حدیث مذکور کا یہی مضمون ابوعمر صنعانی سے بھی روایت کیا ہے، اسی طرح حضرت ابو موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ محشر میں اللہ اپنے سب بندوں کو جمع فرما دیں گے پھر ان میں سے علماء کو ایک ممتاز مقام پر جمع کر کے فرما دیں گے
”یعنی میں نے اپنا علم تمہارے قلوب میں اسی لئے رکھا تھا کہ میں تم سے واقف تھا (کہ تم اس امانت علم کا حق ادا کرو گے) میں نے اپنا علم تمہارے سینوں میں اس لئے نہیں رکھا تھا کہ تمہیں عذاب دوں جاؤ میں نے تمہاری مغفرت کردی“۔ (مظہری)
فائدہ
اس آیت میں سب سے پہلے ظالم کو پھر مقتصد کو آخر میں سابق بالخیرات کو ذکر فرمایا ہے۔ اس ترتیب کا سبب شاید یہ ہو کہ تعداد کے اعتبار سے ظالم لنفسہ سب سے زیادہ ہیں ان سے کم مقتصد اور ان سے کم سابق بالخیرات ہیں، جن کی تعداد زیادہ تھی ان کو مقدم کیا گیا۔
Top