Maarif-ul-Quran - Faatir : 34
وَ قَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْۤ اَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ١ؕ اِنَّ رَبَّنَا لَغَفُوْرٌ شَكُوْرُۙ
وَقَالُوا : اور وہ کہیں گے الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰهِ : اللہ کے لیے الَّذِيْٓ : وہ جس نے اَذْهَبَ : دور کردیا عَنَّا : ہم سے الْحَزَنَ ۭ : غم اِنَّ : بیشک رَبَّنَا : ہمارا رب لَغَفُوْرٌ : البتہ بخشنے والا شَكُوْرُۨ : قدر دان
اور کہیں گے شکر ہے اللہ کا جس نے دور کیا ہم سے غم بیشک ہمارا رب بخشنے والا قدر دان ہے
جو شخص دنیا میں سونے چاندی کے برتن اور ریشمی لباس استعمال کرے گا جنت میں ان سے محروم ہوگا
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ریشمی لباس نہ پہنو، اور سونے چاندی کے برتنوں میں پانی نہ پیو، اور نہ ان کی پلیٹ کھانے میں استعمال کرو، کیونکہ یہ چیزیں دنیا میں کفار کے لئے ہیں اور تمہارے لئے آخرت میں (بخاری ومسلم)
اور حضرت عمر نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جس مرد نے دنیا میں ریشمی کپڑا پہنا وہ آخرت میں نہ پہن سکے گا۔ (بخاری ومسلم) اور حضرت ابو سعید خدری کی ایک روایت میں ہے کہ دنیا میں ریشمی لباس پہننے والا مرد آخرت میں اس سے محروم رہے گا، اگرچہ جنت میں چلا بھی جائے۔ (مظہری)
(آیت) وقالوا الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن، یعی اہل جنت جنت میں داخل ہونے کے وقت کہیں گے، شکر ہے اللہ کا جس نے ہمارا غم دور کردیا۔ اس غم سے کیا مراد اس میں ائمہ تفسیر کے مختلف اقوال ہیں۔ اور صحیح یہ ہے کہ سارے ہی رنج وغم اس میں داخل ہیں۔ دنیا میں انسان کتنا ہی بڑا بادشاہ بن جائے یا نبی و ولی رنج و غم سے کسی کو چھٹکارا نہیں
دریں دنیا کسے بےغم نباشد
وگر باشد بنی آدم نباشد
اس دنیا میں غموں اور فکروں سے کسی نیک یا بد کو نجات نہیں، اسی لئے اہل دانش دنیا کو دارالحزان کہتے ہیں۔ اس آیت میں جس غم کے دور کرنے کا ذکر ہے اس میں یہ دنیا کے غم بھی سب کے سب داخل ہیں، دوسرا غم وفکر قیامت اور حشر ونشر کا، تیسرا حساب و کتاب کا، چوتھا جہنم کے عذاب کا، اہل جنت سے اللہ تعالیٰ یہ سب غم دور فرما دیں گے۔
حضرت عبداللہ ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ کلمہ لا الہ الا اللہ والوں میں نہ موت کے وقت کوئی وحشت ہوتی ہے، نہ قبر میں اور نہ محشر میں۔ گویا کہ میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ جس وقت یہ لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو یہ کہتے ہوں گے الحمد للہ الذی اذھب عنا الحزن، (رواہ الطبرانی، مظہری)
اور حضرت ابو الدردا کی حدیث جو اوپر گزری ہے اس میں جو یہ فرمایا ہے کہ یہ قول ان لوگوں کا ہوگا جو ظالم لنفسہ ہیں۔ کیونکہ محشر میں ان کو ابتداء سخت رنج وغم اور اضطراب پیش آئے گا۔ آخر میں دخول جنت کا حکم مل کر یہ رنج وغم دور ہوجائے گا۔ اس حدیث ابن عمر کے منافی نہیں، کیونکہ ظالم لنفسہ کو دوسروں کے غموں سے زیادہ ایک غم محشر میں بھی پیش آئے گا جو دخول جنت کے وقت دور ہوجائے گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ قول تو سبھی اہل جنت کہیں گے، خواہ سابقین میں سے ہوں یا مقتصدین میں سے یا ظالم لنفسہ، لیکن ہر ایک کے غموں کی فہرست الگ الگ ہونا کچھ مستبعد نہیں۔
امام جصاص نے فرمایا کہ مومن کی شان یہی ہے کہ دنیا میں فکر وغم سے خالی نہ رہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور اکابر صحابہ کے حالات میں ہے کہ یہ حضرات اکثر محزون و مغموم نظر آتے تھے۔
Top