Maarif-ul-Quran - Faatir : 4
وَ اِنْ یُّكَذِّبُوْكَ فَقَدْ كُذِّبَتْ رُسُلٌ مِّنْ قَبْلِكَ١ؕ وَ اِلَى اللّٰهِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ
وَاِنْ : اور اگر يُّكَذِّبُوْكَ : وہ تجھے جھٹلائیں فَقَدْ كُذِّبَتْ : تو تحقیق جھٹلائے گئے رُسُلٌ : رسول (جمع) مِّنْ قَبْلِكَ ۭ : تم سے پہلے وَ اِلَى اللّٰهِ : اور اللہ کی طرف تُرْجَعُ : لوٹنا الْاُمُوْرُ : تمام کام
اور اگر تجھ کو جھٹلائیں تو جھٹلائے گئے کتنے رسول تجھ سے پہلے اور اللہ تک پہنچتے ہیں سب کام
خلاصہ تفسیر
اور (اے پیغمبر ﷺ اگر یہ لوگ (دوبارہ توحید و رسالت وغیرہ) آپ کو جھٹلائیں تو (آپ غم نہ کریں کیونکہ آپ سے پہلے بھی بہت سے پیغمبر جھٹلائے جا چکے ہیں (ایک تو اس سے تسلی حاصل کیجئے) اور (دوسری بات یہ کہ) سب امور اللہ ہی کے روبرو پیش کئے جاویں گے (وہ خود سب سے سمجھ لے گا آپ کیوں فکر میں پڑے۔ آگے عام لوگوں کو خطاب ہے کہ) اے لوگو (الی اللہ ترجع الامور) جس میں قیامت کی خبر ہے اس کو سن کر تعجب واستبعاد مت کرنا) اللہ تعالیٰ کا (یہ) وعدہ ضرور سچا ہے، سو ایسا نہ ہو کہ یہ (دنیوی زندگی تم کو دھوکہ میں ڈالے رکھے (کہ اس میں منہمک ہو کر اس یوم موعود سے غافل (ہو) اور ایسا نہ ہو کہ تم کو دھوکہ باز شیطان اللہ سے دھوکہ میں ڈال دے (کہ تم اس کے اس بہکانے میں نہ آجاؤ کہ اللہ تعالیٰ تم کو عذاب نہ دے گا جیسا کہ کہا کرتے تھے (آیت) ولئن رجعت الی ربی ان لی عندہ للحسنے اور) یہ شیطان (جس کے دھوکہ کا اوپر ذکر ہے) بیشک تمہارا دشمن ہے سو تم اس کو (اپنا) دشمن (ہی) سمجھتے رہو وہ تو اپنے گروہ کو (یعنی اپنے متعبین کو) محض اس لئے (باطل کی طرف) بلاتا ہے تاکہ وہ لوگ دوزخیوں میں سے ہوجاویں (پس) جو لوگ کافر ہوگئے (اور اس کی دعوت و غرور میں پھنس گئے) ان کے لئے سخت عذاب ہے اور جو لوگ ایمان لائے اور اچھے کام کئے (اور اس کی دعوت و غرور میں نہیں پھنسے) ان کے لئے (معاصی کی) بخشش اور (ایمان و عمل صالح پر) بڑا اجر ہے (اور جب کافر کا انجام شدید اور مؤمن کا انجام مغفرت و اجر کبیر ہے) تو کیا (دونوں مساوی ہو سکتے ہیں یعنی) ایسا شخص جس کو اس کا عمل بد اچھا کر کے دکھلایا گیا، پھر وہ اس کو اچھا سمجھنے لگا (اور ایسا شخص جو برے کو برا سمجھتا ہے کہیں برابر ہو سکتے ہیں ؟ پہلے شخص سے مراد کافر ہے جو اغواء شیطان سے باطل کو حق اور مضر کو نافع سمجھتا ہے اور دوسرے شخص سے مراد مومن ہے جو اتباع انبیاء و مخالفت شیطان سے باطل کو باطل حق کو حق ضار کو ضار، نافع کو نافع جانتا ہے۔ یعنی دونوں برابر کہاں ہوئے بلکہ ایک جہنمی اور دوسرا جنتی ہے۔ پس شیطان کے دھوکہ میں آنے والے اور اس کو دشمن سمجھنے والوں میں یہ تفاوت ہے۔ اس لئے ہم کہتے ہیں لا یغرنکم اور ان الشیطن لکم عدو اور اگر اس پر تعجب ہو کہ عاقل آدمی بد کو نیک کیسے سمجھ لیتا ہے سو (اس کی وجہ یہ ہی کہ) اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے (اس کی عقل الٹی ہوجاتی) اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے (اس کا ادراک صحیح رہتا ہے، پھر جب ہدایت و ضلال کا اصل مدار مشیت ہے تو ان پر افسوس کر کے کہیں آپ کی جان نہ جاتی رہے (یعنی کچھ افسوس نہ کیجئے صبر سے بیٹھے رہیں اللہ تعالیٰ کو ان کے کاموں کی خبر ہے (وقت پر ان سے سمجھ لے گا۔)
Top