Maarif-ul-Quran - Yaseen : 12
اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰى وَ نَكْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَ اٰثَارَهُمْ١ۣؕ وَ كُلَّ شَیْءٍ اَحْصَیْنٰهُ فِیْۤ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ۠   ۧ
اِنَّا نَحْنُ : بیشک ہم نُحْيِ : زندہ کرتے ہیں الْمَوْتٰى : مردے وَنَكْتُبُ : اور ہم لکھتے ہیں مَا قَدَّمُوْا : جو انہوں نے آگے بھیجا (عمل) وَاٰثَارَهُمْ ڳ : اور ان کے اثر (نشانات) وَكُلَّ : اور ہر شَيْءٍ : شے اَحْصَيْنٰهُ : ہم نے اسے شمار کر رکھا ہے فِيْٓ : میں اِمَامٍ مُّبِيْنٍ : کتاب روشن (لوح محفوظ
ہم ہیں جو زندہ کرتے ہیں مردوں کو اور لکھتے ہیں جو آگے بھیج چکے اور جو نشان ان کے پیچھے رہے اور ہر چیز گن لی ہم نے ایک کھلی اصل میں۔
(آیت) ونکتب ما قدموا و آثارہم، ”یعنی ہم لکھیں گے ان اعمال کو جو انہوں نے آگے بھیجے ہیں“ عمل کرنے کو آگے بھیجنے سے تعبیر کر کے یہ بتلا دیا کہ جو اعمال اچھے یا برے اس دنیا میں کئے ہیں وہ یہیں ختم نہیں ہوگئے، بلکہ وہ تمہارا سامان بن کر آگے پہنچ گئے ہیں جن سے اگلی زندگی میں سابقہ پڑنا ہے، اچھے اعمال ہیں تو جنت کی باغ و بہار بنیں گے، برے ہیں تو جہنم کے انگارے۔ اور ان اعمال کو لکھنے سے اصل مقصود ان کو محفوظ رکھنا ہے، لکھنا بھی اس کا ایک ذریعہ ہے کہ خطاء و نسیان اور زیارت و نقصان کا احتمال نہ رہے۔
اعمال کی طرح اعمال کے اثرات بھی لکھے جاتے ہیں
وآثارہم، یعنی جس طرح ان کے کئے ہوئے اعمال لکھے جاتے ہیں اسی طرح ان کے آثار بھی لکھے جاتے ہیں۔ آثار سے مراد اعمال کے وہ ثمرات و نتائج ہیں جو بعد میں ظاہر ہوتے اور باقی رہتے ہیں، مثلاً کسی نے لوگوں کو دین کی تعلیم دی، دینی احکام بتلائے یا اس کے لئے کوئی کتاب تصنیف کی جس سے لوگوں نے دین کا نفع اٹھایا یا کوئی وقف کردیا، جس سے لوگوں کو اس کے بعد نفع پہنچا، یا اور کوئی ایسا کام کیا جس سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا، تو جہاں تک اس کے اس عمل خیر کے آثار پہنچیں گے اور جب تک پہنچتے رہیں گے وہ سب اس کے اعمال نامہ میں لکھے جاتے رہیں گے۔ اسی طرح برے اعمال جن کے برے ثمرات وآثار دنیا میں باقی رہے، مثلاً ظالمانہ قوانین جاری کردیئے، ایسے ادارے قائم کردیئے جو انسانوں کے اعمال و اخلاق کو خراب کردیتے ہیں، یا لوگوں کو کسی غلط اور برے راستہ پر ڈال دیا۔ تو جہاں تک اور جب تک اس کے عمل کے برے نتائج اور مفاسد وجود میں آتے رہیں گے، اس کے نامہ اعمال میں لکھے جاتے رہیں گے، جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں خود رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ بجلی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے
”جس شخص نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی ثواب ملے گا اور جنتی آدمی اس طریقہ پر عمل کریں گے ان کا بھی ثواب اس کو ملے گا بغیر اس کے کہ ان عمل کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی آوے۔ اور جس نے کوئی برا طریقہ جاری کیا تو اس کو اس کا بھی گناہ ہوگا اور جتنے آدمی جب تک اس برے طریقہ پر عمل کرتے رہیں گے ان کا گناہ بھی اس کو ہوتا رہے گا بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے گناہوں میں کمی آوے“
آثار کے ایک معنی نشان قدم کے بھی آتے ہیں۔ حدیث میں ہے کہ انسان جب نماز کے لئے مسجد کی طرف چلتا ہے تو اس کے ہر قدم پر نیکی لکھی جاتی ہے۔ بعض روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں آثار سے مراد یہی نشان قدم ہیں، جس طرح نماز کا ثواب بھی لکھا جاتا ہے اسی طرح نماز کے لئے جانے میں جتنے قدم پڑتے ہیں ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ ابن کثیر نے ان روایات کو اس جگہ جمع کردیا ہے جن میں یہ مذکور ہے کہ مدینہ طیبہ میں جن لوگوں کے مکانات مسجد نبوی سے دور تھے انہوں نے ارادہ کیا کہ مسجد کے قریب مکان بنالیں، آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا کہ جہاں رہتے ہو وہیں رہو، دور سے چل کر آؤ گے تو یہ وقت بھی ضائع نہ سمجھو، جتنے قدم زیادہ ہوں گے اتنا ہی تمہارا ثواب بڑھے گا۔
اس پر جو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یہ سورة مکی ہے، اور جو واقعہ ان احادیث میں مذکور ہے وہ مدینہ طیبہ کا ہے۔ اس کا جواب یہ ہوسکتا ہے کہ آیت تو اپنے عام معنی میں ہے کہ اعمال کے اثرات بھی لکھے جاتے ہیں اور یہ آیت مکہ ہی میں نازل ہوئی ہو، پھر مدینہ طیبہ میں جب یہ واقعہ پیش آیا تو آپ نے بطو راستدلال کے اس آیت کا ذکر فرمایا۔ اور نشان قدم کو بھی ان آثار باقیہ میں شمار فرمایا ہے جن کے لکھے جانے کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں ہے۔ اس طرح ان دونوں تفسیروں کا ظاہری تضاد بھی رفع ہوجاتا ہے (کما صرح بہ ابن کثیر واختارہ)
Top